فہرست
فلسفے کو تعقل کے مترادف سمجھنا درست نہیں، اسکا بیشتر حصہ جہلِ مرکب تھا۔ فلسفہ کے قارئین کے پاس یونانیوں اور ان کے بعد آنے والوں کے پراکندہ خیالات فارابی اور ابنِ سینا وغیرہ کے ذریعے آئے۔ انہوں نے اموی و عباسی خلافتوں کے زیر اہتمام کرائے گئے تراجم سے استفادہ کیا تھا۔
فلاسفہ کے فاسد عقائد
یونانیوں کی کتب سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ لوگ مشرک تھے، متعدد بتوں کو مانتے تھے اور انبیاء ؑ کی نبوت اور قیامت کے منکر تھے اور اخلاقیات کے بارے میں نامعقول تصورات میں مبتلا تھے۔ بعد والوں میں بھی سکندریہ کا فلوطین (متوفیٰ270ء)، Plotinus، حضرت عیسی ؑ کی نبوت کا قائل نہ تھا۔ ابوجہل، جسے مشرکینِ مکہ ابوالحکم کہتے تھے، حضرت محمدؐ کے خلاف لڑتے ہوئے مارا گیا۔
ارسطو اپنے اساتذہ اور افلاطون کی مانند بت پرست تھا اور یونانی دیوتاؤں کی تعریف کرتا تھا۔ افلاطون زنا، شراب نوشی، اور ہم جنس پرستی کو فروغ دینے میں یقین رکھتا تھا [1]۔ وہ کوہِ اولمپس پر موجود شہوت پرستی کے دیوتاؤں کی عبادت کرتا تھا۔ [2] وہ عورتوں کو تمام مردوں کی ملکیت سمجھتا تھا۔ [3] اور موت کے بعد تناسخ یعنی دوبارہ جنم لینے پر یقین رکھتا تھا۔ [4]
افلاطون کوہِ اولمپس کے دیوتاؤں کی پوجا کے بارے میں کہتا ہے: ’’کیا ہم احمق ہیں کہ تمام دیوتاؤں کے سامنے دستِ دعا دراز نہ کریں؟‘‘ [5] افلاطون اور ارسطو کے تمام آثار میں دیوتاؤں کی دعا اور تعریف دیکھی جا سکتی ہے۔
افلاطون کی کتاب قوانین میں شراب اور مستی کے دیوتا دیونیزوس کی حمد آئی ہے۔ جنگ کی بات ہوتی ہے تو جنگ کے خدا کا ذکر آتا ہے۔ یہاں تک کہ سقراط بھی اپنے آپ کو اپالو دیوتا کا رسول سمجھتا ہے۔
یونانیوں کے چند اہم دیوتا یہ تھے: ایفرودیت، اپالو، آریز، آرتمیس، ایتھنا، ڈیمیٹر، دیونیزوس، پلوٹو، ہیفیستوس، ہیرہ، ہرمیس، ہیسٹیہ، پوسائڈن اور زیوس۔ معروف تاریخ دان ول ڈیورانٹ (متوفیٰ 1981ء) افلاطون کی اکیڈمی کے بارے میں کہتا ہے: ’’اکیڈمی ایک مذہبی بیٹھک کا ادارہ تھا جو دیوتاؤں کے عبادت گزاروں کی خدمت پر مامور تھا‘‘ [6]
افلاطون شراب نوشی کو ایک عظیم خوشی اور دیونیزوس (مستی کے دیوتا) کا تحفہ سمجھتا ہے۔ [7] اس کا خیال ہے کہ لوگ مرنے کے بعد بتوں کی طرف لوٹتے ہیں۔ [8]
یونانی توحید، نبوت، یوم حساب، یا قیامت کا کوئی عقیدہ نہیں رکھتے تھے۔ جیسا کہ افلاطون انسانوں کو دیوتاؤں (اولمپس پہاڑ کے بتوں) کے بچے سمجھتا ہےاور اس کا خیال ہے کہ مرنے کے بعد بدکردار لوگ اسی دنیا میں جانور بن جاتے ہیں۔ [9] اور اچھے لوگ دیوتاؤں میں شامل ہوتے ہیں [10] اور دیوتا بن جاتے ہیں۔ [11]
افلاطون قانون کی کتاب میں کہتا ہے کہ بہترین سماجی ڈھانچہ، بہترین حکومت اور موزوں ترین قوانین ایسے معاشرے میں مل سکتے ہیں جہاں نہ صرف تمام جائیدادیں، بلکہ عورتیں اور بچے بھی تمام لوگوں میں مشترک ہوں، اور ہر قسم کی شخصی ملکیت کو ختم کر دیا جائے۔ [12]
افلاطون عورتوں اور بچوں کی تقسیم کے بارے میں کہتا ہے کہ خواتین سپاہی سب مرد سپاہیوں کی ہوں اور ان میں سے کوئی کسی ایک مرد تک محدود نہ رہے۔ بچوں کو بھی ان میں بانٹ دینا چاہیے۔ باپ کو اپنے پرائے بچوں کی تمیز نہیں ہونی چاہئے، اور بچوں کو بھی معلوم نہیں ہونا چاہئے کہ ان کا باپ کون ہے؟ [13]
ہم جنس بازی
افلاطون اپنی کتاب سمپوزیم میں کہتا ہے: ونوس، جو ایفرودیت سے منسلک ہے، تنہا مرد سے پیدا ہوا ہے اور اس کی تخلیق میں کسی عورت نے حصہ نہیں لیا۔ اس لیے وہ لڑکوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ جو لوگ اس سے الہام لیتے ہیں وہ بھی صرف لڑکوں پر دل ہارتے ہیں کہ جو قدرتی طور پر عورتوں سے زیادہ عقلمند اور مضبوط ہوتے ہیں۔ [14]
ملا صدرا نے بھی افلاطون کی پیروی میں ہم جنسوں سے محبت کو اچھا اور مخالف جنس کی طرف کشش کو گھٹیا قوموں کا شیوہ قرار دیا ہے۔ اسفار اربعہ میں وہ اس موضوع پر ایک پوری فصل بعنوان ”في ذكر عشق الظرفاء والفتيان للأوجه الحسان“ قائم کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: حساس لوگوں کا نوعمر خوبصورت لڑکوں سے عشق – ملا صدرا
یونانی فلاسفہ کی اندھی تقلید پر مبنی یہ نظریات اس کتاب میں بیان ہوئے ہیں جس کے بارے میں ملا صدرا کا دعوٰی یہ ہے کہ:
”دوام ریاضت و مجاہدے سے بالآخر میری روح ایک نورانی کیفیت کے ساتھ بھبھک اٹھی، اور دل ایک قوی روشنی سے چمک اٹھا جس کی بدولت ملکوت کے انوار کی بارش مجھ پر ہونے لگی۔۔۔ حق تعالیٰ نے مجھے الہام فرمایا کہ جس جرعے سے میں خود فیضیاب ہوا ہوں اس کی تقسیم ان پیاسوں میں بھی کروں جو علم کے طالب ہیں۔“ [15]
ملا صدرا کا سلام
ملا صدرا یونانی فلسفیوں کے معاملے میں غلو کا شکار ہے۔ وہ فلسفے کے اسلاف کو غلطیوں سے مبرا جانتا ہے اور ان کی شان میں ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے جو زیارت جامعہ کبیرہ میں آئمہ علیہم السلام کیلئے استعمال کی گئی تعبیرات جیسے ہیں۔ وہ انہیں الہامی علوم کا خزانہ، مقامِ عصمت پر فائز اور جنت مکانی سمجھتا ہے:
«فأقول مخاطبا لهم ومواجها لأرواحهم: ما أنطق برهانکم یا أهل الحکمه. و أوضح بیانکم یا أولیاء العلم والمعرفه. ما سمعت شیئا منکم إلّا مجّدتکم و عظّمتکم به، فلقد وصفتم العالم وصفا عجیبا إلهیّا، وعلمتم آلاء اللّه علما شریفا برهانیّا، ونظمتم السّماء والأرض نظما عقلیّا، ورتّبتم الحقائق ترتیبا إلهامیّا حقیقیّا. جزاکم اللّه خیر الجزاء. للّه درّ قوّه عقلیّه سرت فیکم وقوّمتکم وصانت علیکم وعصمتکم من الخطأ والزّلل، وأزاحت عنکم الآفه والخلل والأسقام والعلل؛ ما أعلى وأشمخ قلّتها وأجلّ وأشرف علّتها. عمر اللّه بکم دار الآخره والسّرور، وبنى لکم درجات الجنّه والقصور، وأطال لکم عیش الملکوت الأصفى والبهجه العلیا والنّور الأسنى مع النّبیّین والصّدّیقین والشّهداء والصّالحین، وحسن أولئک رفیقا.» [16]
ترجمہ: ”پس میں ان کو مخاطب کر کے ان کی ارواح سے کہتا ہوں: اے فلسفیو! آپ کے دلائل کی کیا ہی بات ہے، اور اے اولیائے علم و معرفت! آپ کا بیان کس قدر واضح ہے۔ میں نے آپ کے بارے جو بھی سنا اس نے میری نظر میں آپ کی عظمت و جلالت کو بڑھا دیا۔ آپ نے دنیا کی شگفت انگیز روحانی تشریح کی ہے۔ آپ نے خدا کی لامحدود نعمات کو ایک شریف اور برہانی علم سے بیان کیا، زمین و آسمان کو عقلی نظم میں پرویا اور حقائق کو الہامی و حقیقی ترتیب عطا کی۔ اللہ آپ کو اس کا بہترین اجر دے۔ خدا کی قسم! آپ میں عقل کی وہ طاقت بھری ہے جس نے آپ کو مضبوطی عطا کر دی ہے اور غلطیوں سے پاک رکھ کر مقامِ عصمت پر فائز کر دیا ہے۔ نیز آفتوں، دماغی خلل، بیماریوں اور دکھوں کو آپ سے دور کر دیا۔ اس کی بلندی کتنی اعلیٰ و برتر ہے اور اس کی دلیلیں کتنی محترم ہیں۔ اللہ آپ کو آخرت کا آرام دہ گھر عطا کرے اور آپ کیلئے جنت میں محلات تیار کرے۔ آپ کو ہمیشہ کیلئے پاک ترین ملکوت، عالی ترین لذتوں اور انبیاؑء، شہداء اور صالحین کی نورانی صحبت نصیب فرمائے۔ اور یہی سب سے بہتر رفاقت ہے۔“
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
ملا صدرا اور فلوطین
ملا صدرا کی کتب اصل میں فلوطین (متوفیٰ270ء) کے نظریات کی تشریح اور ان کو اسلامائز کرنے کی کوشش ہیں۔ وہ اس کی کتاب اثولوجیا کو ارسطو کی کتاب سمجھتا تھا۔ یہ غلطی بھی اس کے کشف و الہام کے فریب کا پردہ چاک کرتی ہے۔ وہ لکھتا ہے:
”ارسطو کی کتاب اثولوجیا کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مذہب بھی اس باب میں وہی تھا جو اس کے استاد کا تھا وہ بھی انواع کے لیے مثلِ عقلیہ اور ایسی مجرد نوری صورتوں کا قائل تھا، جن کا قیام بذات خود عالم ابداع میں ہے۔“ [17]
حرکتِ جوہری کے مفروضے کو اثولوجیا سے ماخوذ قرار دیتے ہوئے کہتا ہے:
”یونانی فلاسفہ کے استاد نے اپنی کتاب اثولوجیا، جس کے معنی حق شناسی کے ہیں، میں یہ لکھا ہے۔
کسی قسم کا کوئی جرم (جسم) کیوں نہ ہو، مرکب ہو یا بسیط، وہ کسی طرح ثابت اور قائم نہیں رہ سکتا، اگر اس میں کوئی نفسانی (روحانی) قوت موجود نہ ہوگی اور یہ بات اس لیے ضروری ہے کہ اجرام کی طبیعت میں سیلانی کیفیت اور فنا پذیری داخل ہے، پس اگر سارا عالم صرف جرم ہی جرم ہو اور اس میں کوئی نفس (روح) اور کسی قسم کی حیات و زندگی نہ ہو، تو تمام چیزیں برباد و تباہ ہلاک و درہم برہم ہوکر رہ جائیں گی۔
مذکورہ بالا عبارت میں تو اس کی بھی تصریح موجود ہے، کہ جسمانی طبیعت اس شخص کے نزدیک بھی ایک سیال جوہر ہے، اور اس بات کی بھی صراحت ہے کہ تمام اجسام خود اپنی ذات کی حیثیت سے تباہ و برباد ہونے والے ہیں اور عقلی ارواح باقی رہتے ہیں جیسا کہ میں پہلے بھی اشارہ کر چکا ہوں۔“ [18]
آخر میں جسمانیۃ الحدوث و روحانیۃ البقاء والا مفروضہ مراد ہے، ملا صدرا کہنا چاہتا ہے کہ وہ بھی اس نے فلوطین سے کشید کیا ہے۔ فلوطین (Plotinus) مشرک تھا اور حضرت عیسیٰؑ پر ایمان نہیں رکھتا تھا۔ عرب فلسفی يامبليخوس (245ء – 325ء) اس کا پیروکار تھا۔ وہ نوفلاطونی تصورِ کائنات اور منظومہٴ فکر کی تدوین، تنظیم اور بسط و تشریح میں کوشاں رہا۔ پروکلس (410ء – 485ء) زمانۂ قبلِ اسلام کا ایک اہم مشرک فلسفی ہے جو پانچویں صدی عیسوی میں گذرا ہے۔ مشرکینِ مکہ بھی اسی جہلِ مرکب میں گرفتار تھے۔
یہ بھی پڑھئے: ملا صدرا اور پروکلس کے ہاں صادرِ اول کا تصور
ثقلین سے تمسک کی ضرورت
یاد رہنا چاہئے کہ مسلمانوں کو صرف ثقلین، یعنی قرآن و اہلبیت ؑ، سے دین لینے کا حکم دیا گیا ہے۔ رسولِ خداؐ نے فرمایا: ”میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں اللہ کی کتاب اور اہلِ بیت ؑ چھوڑے جا رہا ہوں۔ اگر ان دونوں سے متمسک رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے۔ یہ قیامت تک ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر میرے پاس پہنچ جائیں۔“ حدیثِ ثقلین اہلِ سنت کے جید محدثین نے بھی روایت کی ہے۔ مثلاً:
«حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ المُنْذِرِ الكُوفِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ قَالَ: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَالأَعْمَشُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَألهِ وَسَلَّمَ: ” إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي أَحَدُهُمَا أَعْظَمُ مِنَ الآخَرِ: كِتَابُ اللَّهِ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الأَرْضِ. وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي، وَلَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الحَوْضَ فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونِي فِيهِمَا.» [19]
امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں:
«إِنَ دِینَ اللَّهِ لَا یُصَابُ بِالْعُقُولِ النَّاقِصَهِ وَ الْآرَاءِ الْبَاطِلَهِ وَ الْمَقَایِیسِ الْفَاسِدَهِ وَ لَا یُصَابُ إِلَّا بِالتَّسْلِیمِ فَمَنْ سَلَّمَ لَنَا سَلِمَ وَ مَنِ اهْتَدَى بِنَا هُدِیَ وَ مَنْ دَانَ بِالْقِیَاسِ وَ الرَّأْیِ هَلَکَ وَ مَنْ وَجَدَ فِی نَفْسِهِ شَیْئاً مِمَّا نَقُولُهُ أَوْ نَقْضِی بِهِ حَرَجاً کَفَرَ بِالَّذِی أَنْزَلَ السَّبْعَ الْمَثَانِی وَ الْقُرْآنَ الْعَظِیمَ وَ هُوَ لَا یَعْلَمُ.» [20]
ترجمہ: ”بے شک خدا کا دین ناقص ذہنوں اور باطل نظریات اور فاسد اور بے بنیاد قیاس آرائیوں سے نہیں سمجھا جا سکتا۔ اس تک پہنچنے کا واحد راستہ تسلیمِ محض ہونا ہے۔ لہٰذا جو ہم اہلِ بیت ؑ کا تابع ہو گا وہ ہر قسم کے انحراف سے محفوظ ہے اور جو ہماری رہنمائی میں چلے گا خوش بخت ہو گا۔ جو شخص مذہب کو اپنی ذاتی خیال بافی سے سمجھنے کی کوشش کرے گا وہ تباہ ہو جائے گا۔“
شہید ثانی رضوان الله علیہ کا دردِ دل
شارح لمعہ جناب زين الدين بن على عاملی (متوفیٰ 1559ء)، جو شہیدِ ثانی کے لقب سے معروف ہیں، اپنے ایک رسالے میں دینی طلاب کو یوں نصیحت کرتے ہیں:
”اس سے بڑی مصیبت اور خواری کہ جس کا ارتکاب کرنے والا گناہ گار ہے، یہ ہے کہ ہمارے دور کے ایران میں یہ رواج ہو گیا ہے کہ ایسے بہت سے لوگوں نے خود کو عالمِ دین بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا ہے جو اپنی زندگی اور وقت کو منطق و فلسفہ اور اس قسم کی چیزیں سیکھنے میں لگا دیتے ہیں۔
جبکہ ان چیزوں کا سیکھنا یا ذاتاً اور یا کسی واجب حکم سے ٹکرانے، جیسے حقیقی اور وحی پر مبنی علوم سیکھنے میں رکاوٹ بننے، کی وجہ سے حرام ہے۔
حالانکہ اگر یہ لوگ اس سے کمتر وقت دینی علم سیکھنے میں لگاتے، جس کے بارے میں بروزِ قیامت ان سے سوال ہو گا اور کوتاہی کی وجہ سے سخت بازپرس ہو گی، تو اتنا دینی علم سیکھ پاتے جو خود ان پر سیکھنا واجب ہے۔
حیرت ہے کہ یہ حقیقی دینی علم سیکھنے کے بجائے فلسفہ بافی کے پیچھے جاتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی بہت اچھا کام کر رہے ہیں: يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعاً (سورہ کہف، آیت 104)۔ الٹا یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ یہ سیکھ رہے ہیں وہی سب سے بڑی فضیلت ہے اور اس کا فائدہ یقینی ہے۔ جبکہ یہ خدا کے ہاں عینِ خواری ہے۔
بلکہ یہ دین کی جڑیں کاٹنا ہے کہ کوئی شخص حضرت محمدؐ اور ان کے پاک اہلبیت ؑ کی پیروی کا مدعی ہو اور ارسطو وغیرہ کے دین کے احیاء میں لگ جائے۔ اور اس حقیقی الہیٰ دین کو چھوڑ دے کہ جس کے ساکنانِ زمین و آسمان پابند ہیں۔ اس غفلت سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں اور اس کی بارگاہ سے رحمت و بخشش کی درخواست کرتے ہیں۔“ [21]
حوالہ جات
[1] قوانین/ ۶۵۴[2] تیمائوس/ ۱۴
[3] قوانین/ ۷۳۹
[4] تیمائوس/ ۹۱-۹۲
[5] تیمائوس/ ۲۷
[6] تاریخ تمدن ـ رنسانس/ ۵۷۲
[7] قوانین / ۶۴۶
[8] تیمائوس/ ۴۱
[9] تیمائوس/ ۹۲
[10] تیمائوس/ ۴۱
[11] جمهوری/ ۴۶۹
[12] قوانین / ۷۳۹
[13] جمهوری / ۴۵۷
[14] مهمانی/ ۱۸۱
[15] مناظر احسن گیلانی، فلسفۂ ملا صدرا، ترجمہ اسفار اربعہ، صفحہ 11، حق پبلیکیشنز، لاہور، 2018ء۔ و ملا صدرا، اسفار اربعہ (عربی)، جلد 1، ص 8، بیروت.
[16] (الف) رساله فى الحدوث، ملاصدرا، ۲۴۲ ـ ۲۴۳.
(ب) ملاصدرا، مفاتیح الغیب، صفحات ۳۷۹ – ۳۸۰، انجمن اسلامی حکمت و فلسفه ایران، تهران، ۱۳۶۳.
[17] فلسفۂ ملا صدرا، ترجمہ اسفار اربعہ، صفحہ 341، حق پبلیکیشنز، لاہور، 2018ء۔ بیروت سے شائع شدہ عربی نسخے میں متعدد مقامات پر ”أرسطاطاليس في أثولوجيا“ آیا ہے۔ ملاحظہ ہو: جلد 2، ص 357؛ جلد 3، ص 427؛ جلد 8، ص 356؛ جلد 9، ص 63۔
[18] فلسفۂ ملا صدرا، ترجمہ اسفار اربعہ، صفحہ 643، حق پبلیکیشنز، لاہور، 2018ء۔ و اسفار اربعہ (عربی)، جلد سوم، فصل 28، صفحہ 111، بیروت۔
[19] سنن الترمذي ج5 ص663، الناشر: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي – مصر، الطبعة: الثانية، 1395 هـ – 1975 م. أسد الغابة في معرفة الصحابة ج2 ص13، الناشر: دار الكتب العلمية، الطبعة: الأولى، سنة النشر: 1415هـ – 1994 م. الدر المنثور ج7 ص349، الناشر: دار الفكر – بيروت.
[20] کافی، ج ۱، ص ۵۶؛ کمال الدین، ج ۱، ص ۳۲۴؛ مستدرک الوسائل: ج ۱۷، ص ۲۶۲. [21] رسائل الشهيد الثاني، ج ۱، ص ۵۵، تحقیق: رضا مختاری، مركز الأبحاث و الدراسات الإسلاميّة، قم.
أعْظَمُ مِن هذا مِحْنَةً، و أكبرُ مصيبةً، و أوجَبُ على مرتكِبِه إثماً، ما يتداوَلُه كثير من المُتّسِمينَ بالعلمِ من أهلِ بلادِ العجم، و ما ناسَبَها من غيرهم في هذا الزمان؛ حيث يصرِفُون عمرَهُم و يَقْضون دهرَهُم على تحصيل علوم الحكمة، كعلمِ المنطقِ و الفلسفة و غيرهما، ممّا يَحْرُمُ لذاتِهِ أو لمنافاتِه للواجب، على وجهٍ لو صَرَفوا جزءاً منه على تحصيلِ العلمِ الديني الذي يَسألُهُمُ اللهُ تعالى عنه يومَ القيامةِ سؤالًا حثيثاً، و يُناقِشُهُم على التفريط فيه نِقاشاً عظيماً لحَصّلوا ما يجِبُ عليهم من علمِ الدين. ثمّ هم مع ذلك يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعاً، بل يَزْعُمونَ أنّ ما هم فيه أعظمُ فضيلةً و أتَمّ نفعاً. و ذلك عينُ الخِذلانِ من الله سبحانه و البُعدِ عنه. بل الانسلاخُ من الدين رأساً أنْ يُحْيِيَ من يَزْعُمُ أنّه مِن أتْباع سيّد المرسلين محمّدٍ و آله الطاهرين دينَ أرسطو و مَنْ شاكَلَه من الحكماء، و يُهْمِلَ الدينَ الذي دانَ اللهُ به أهلَ الأرضِ و السماء. نعوذ بالله من هذه الغَفلةِ و نَسألُه العفوَ و الرحمةَ.



