حقیقی مکاشفے کیلئے دستور العمل کے طالب جوان کو نصیحت – آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ لطف اللہ صافی گلپائگانی
سوال: جنابِ عالی سے دستور العمل کی درخواست ہے تاکہ میرے لئے کوئی مکاشفہ ہو، چاہے معمولی سا ہی ہو، کہ ان شاء اللہ میرے لئے قلبی اطمینان کا باعث ہو۔
جواب: میرے بیٹے! اپنی جوانی اور ذمہ داری کی زندگی کے آغاز میں ہی قرآنِ مجید، احادیثِ شریفہ اور معتبر دعاؤں، جیسے صحیفۂ سجادیہ، سے دستور العمل لو۔ کشف اور مکاشفہ کے چکروں میں نہ پڑو، کہ جس کا بعض لوگ دعویٰ کرتے ہیں۔ اپنے قیمتی وقت اور عمر کو ضائع نہ کرو۔
کیا اتنے مشاہدات تمہارے لئے کافی نہیں ہیں؟ خدا کی اتنی آیات اور نشانیاں ہیں اور وہ انکشافات ہیں کہ جن تک انسانی عقل کائنات کی خلقت میں تفکر کے ذریعے پہنچی ہے۔ زمین، آسمان، سورج، چاند، سیاروں کے نظاموں، کہکشاؤں، انسان، حیوانات، متحرک موجودات، پودوں کی وسیع دنیا، اور خود تمہارا اپنا وجود، یہ سب حقائق کے کشف و شہود کا وسیلہ ہیں۔
معارف اور خدا شناسی میں کچھ ایسا نہیں جو چھپا ہوا راز ہو کہ جسے مکاشفے سے حاصل کیا جا سکے۔ خود اپنے آپ میں، اپنی خلقت میں، عجائبِ عالمِ خلقت میں اور حق و حقیقت کے ان کثیر اسرار اور علامتوں میں غور و فکر کرو کہ یہ سب مکاشفہ ہی ہے۔ اپنی آنکھوں سے جو دیکھتے ہو، اس میں کیا کمی ہے؟ یہ جو اتنی زیادہ کھلی آیات کو دیکھتے ہو، یہ عالمِ غیب کے دلائل اور نشانیاں نہیں ہیں جو خواب اور مکاشفے کے ذریعے خدا کو پہچاننا اور عقیدے کو پکا کرنا چاہتے ہو؟
کدام برگ درخت است، اگر نظر داری
کہ سرِ پاک الہیٰ در آن نہ محجوب است
اتنے طرح طرح کے درخت اور مزیدار اور خوبصورت پھل، اتنی کلیاں اور رنگارنگ پھول،
برگِ درختان سبز در نظرِ ہوشیار
ہر ورقش دفتری است معرفت کردگار
دیکھو اور سوچو، کتابِ خلقت کا مطالعہ کرو۔ خشکی اور پانی کے عجائبات، انسان کی صلاحیتیں، جڑی بوٹیوں اور جمادات کے خواص، ان سب پر غور کرو۔ یہ سبھی کشف، انکشاف اور شہود ہے۔
خدا نے اپنے آپ کو اپنی قدرت و حکمت کے آثار کے ذریعے سب کے سامنے ظاہر کر دیا ہے۔ اس کائنات کے اجزاء اور اعضاء کا ہر چھوٹا سا حصہ کشف و شہود کی ایک بڑی کتاب ہے کہ انسان اگر چاہے، تو دیکھے اور خدا کی تسبیح کرے۔ قرآن فرماتا ہے:
وَ فِي الأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ وَ فِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلا تُبْصِرُون. (سورہ ذاریات، آیات 20، 21)
ترجمہ: ”اور زمین میں یقین والوں کیلئے نشانیاں ہیں۔ اور خود تمہاری ذاتوں میں، تو کیا تم دیکھتے نہیں؟“
کیا ان سب بے شمار آیات، جو قرآن فرما رہا ہے، سے مکاشفہ حاصل نہیں ہوتا؟ آخر کیوں نیند جیسی حالت میں مکاشفے کے پیچھے جائیں اور خلقِ آسمان و زمین میں تفکر سے مکاشفے اور کشف کو حاصل نہ کریں کہ جو حقیقی مکاشفہ ہے اور صوفیوں اور عارفوں والا مصنوعی مکاشفہ نہیں ہے؟
آفاقِ انفس کی سیر، کائنات کا علم، حیوانات اور انسانوں کے بارے علم، پانی، مٹی اور پودوں کا علم حاصل کرنا، یہ سب مکاشفے کا وسیلہ ہے۔ دور جانے کی کیا ضرورت، خود شناسی بھی کشف ہے۔
مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ (1)
ترجمہ: ”جس نے اپنے نفس کو پہچانا، اس نے اپنے رب کو پہچانا۔“
تویی تو، نسخہ صنع الہیٰ
بجو از خویش ہر چیزی کہ خواہی
اگر سب انسانوں کی عقل کو ایک شخص کے حوالے کر دیں کہ صدیوں تک اپنے آپ میں فکر کرے، تو بھی یہ سفر ختم نہ ہو گا۔
کشف اور مکاشفہ یہ ہے کہ فرمایا: جو کچھ بھی دیکھو اور جو کچھ ظاہر میں دیکھو، اس کے باطن کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ حقیقی مکاشفہ اس قسم کی آیات میں تأمل کرنا ہے:
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ . الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ. (سورہ آل عمران، آیات 190, 191)
ترجمہ: ”بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کی باہم تبدیلی میں عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ جو کھڑے اور بیٹھے اور پہلوؤں کے بل لیٹے ہوئے اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں۔ اے ہمارے رب! تو نے یہ سب بیکار نہیں بنایا۔ تو پاک ہے، تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔“
اس راستے میں جو اہم ہے اور زیادہ تر انسان کو کامیاب کرتا ہے، عبادت کا اہتمام کرنا اور احکامِ دین کو بجا لانا اور آئمۂ طاہرین علیہم السلام کی ہدایات کی پابندی کرنا اور تقویٰ و پرہیزگاری اور گناہوں اور مکروہات سے بچنا ہے۔
امید ہے کہ آپ عزیز نوجوان علم و عمل اور اخلاق و انسانیت کے بلند مقام تک پہنچنے میں کامیاب ہوں گے۔ اور خصوصاً امامِ زمان و قطبِ عالمِ امکان، ہمارے مولا حضرت بقیۃ اللہ المہدی ارواح العالمين لہ الفداء، کو نہ بھولیں کہ ان کی برکت سے آج کائنات قائم ہے۔ اور کوشش کریں کہ اپنے اعمال اور کردار سے آنحضرت ؑ کو راضی اور خوشنود کریں کہ یہی آرزوؤں کی چوٹی ہے۔ (2)
سوال: کیا تخصصی علوم کی طرح، جیسا کہ علمِ حدیث ہے کہ جس میں کسی ماہر سے اجازت لینے کی ضرورت ہوتی ہے، آئمہ طاہرین علیہم السلام سے مذکور اذکار کے بیان میں بھی کسی سے اذن لینا لازم ہے؟
جواب: دعائیں پڑھنے میں یہی کافی ہے کہ انسان دعاؤں اور اذکار کو معتبر کتب سے پڑھے، مثلاً مفاتیح الجنان، علامہ مجلسی کی کتب، شیخ طوسی کی کتابِ مصباح، وغیرہ۔ نیز کسی خاص بندے کی رائے لینا ضروری نہیں ہے۔ بلکہ بعض دستور العمل کہ جن کو صوفیوں اور بعض دوسروں نے مشہور کر رکھا ہے کہ جن میں کسی سے اجازت لینا ضروری سمجھا جاتا ہے، بے بنیاد ہیں اور ان میں سے کچھ تو بدعت اور حرام ہیں۔ غرض یہ کہ لازم ہے کہ دعا اور عبادت اور وظائف کا اسلوب، شریعت اور حضراتِ معصومین علیہم السلام کے ذریعے ہم تک پہنچا ہو۔ لوگوں کی ذاتی اختراعات کی پیروی نہیں کرنی چاہئے۔ (3)
حوالہ جات:
1۔ عوالی اللئالی، جلد 4، صفحہ 142۔
2۔ آیۃ اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی، ”معارفِ دین“، جلد سوم، سوال 265، صفحات 329 – 332، دفتر تنظیم و نشر آثار آیۃ اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی، قم، 1391 شمسی۔
3۔ آیۃ اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی، ”معارفِ دین“، جلد سوم، سوال 224، صفحہ 275، دفتر تنظیم و نشر آثار آیۃ اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی، قم، 1391 شمسی۔