عقلی اور نقلی دلائل سے صوفیاء کے اقوال کا رد – سید العلماء آیۃ اللہ سید حسین علیین مکان
چوتھا باطل فرقہ صوفیہ کا ہے جو کہ متعدد گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ان کے بہت سے سلسلے ہیں۔ ان کے محققین وحدت الوجود کے قائل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سوائ خدا کے اور کوئی موجود ہی نہیں، جو کچھ ہے وہ اسی کا مظہر ہے۔ وہ دریا اور اسکی موجوں اور مٹی اور کوزے کی مثالیں دیتے ہیں۔ یعنی وہ کہتے ہیں کہ جیسے موجِ دریا بھی دریا ہی کا مظہر ہے اورکوزہ بھی مٹی ہی کی ایک شکل ہے، اسی طرح ہر موجود خداوندِ عالم ہی کا مظہر ہے۔ اور اسی کے وجود کی ایک صورت ہے۔
ان کا باطل گمان یہ ہے کہ حقیقی موحد یہ ہیں کیونکہ یہ خدا کے سوا کسی کے ہونے کے قائل ہی نہیں ہیں۔ حالانکہ ان کا یہ واہی خیال اور گمان اس بات کو مستلزم ہے کہ وہ ہر چیز کو خدا کہیں کیونکہ وہ واجب الوجود پر ممکن کا حمل اتحادِ وجود کے باعث جائز سمجھتے ہیں۔ اس تقدیر پر مصادیقِ واجب کی کثرت کی کوئی انتہاء نہ ہو گی۔
یہ کیسے توحید ہو سکتی ہے جبکہ وہ فرقے جو دو خداؤں کے قائل ہیں، جیسے مثلاً ثنویہ، وہ کافر ہیں۔ تو پھر ان لوگوں کی حالت نہایت قابلِ افسوس ہے کہ یہ ہر چیز کو خدا جانتے ہیں۔ اور عوام کو مغالطہ دینے اور مخلوق پر حق کو مشتبہ رکھنے کیلئے اور علمائے دین کے خوف کی وجہ سے ان مضامینِ کفر آئین کو اپنی عبارتوں میں اشاروں کے ذریعے ادا کرتے ہیں۔ اور اس ذریعہ سے اپنے عیب کو پردہ پوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اورمومنین بالیقین کی گرفت کے وقت واہی اور رکیک تاویلات کا ارتکاب کرتے ہیں۔ بلکہ اپنی شان کی بلندی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کوئی شخص ہمارے کلام کو سمجھ نہیں سکتا۔
اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو علمِ باطن کا عالم قرار دیتے ہیں اور علمائے دین کو علمِ ظاہر کا عالم کہتے ہیں۔ اور دعوے کرتے ہیں کہ علمائے دین کو ہمارے بیان کے دقائق اور باریکیوں تک رسائی نہیں ہو سکتی۔ حتیٰ کہ انتہائی بے حیائی کے باعث علمائے دین کو قشریین کا نام دیتے ہیں۔ مطلب ان کا یہ ہوتا ہے کہ علمائے دین کی نگاہ صرف پوست اور چھلکے تک پہنچ سکتی ہے۔ کلام کے مغز تک نہیں پہنچ سکتی۔ اور کہتے ہیں کہ ہمارا طور و طریق، طورِ عقل سے جداگانہ ہے۔
لیکن برتن میں جو ہوتا ہے، باہر بھی وہی آتا ہے۔ لہٰذا اہل بصیرت پر حقیقت مخفی نہیں رہ سکتی۔ بلکہ ان کی ایک جماعت نے اپنے چہرے سے پردہ کو اٹھا کر ان مطالب کی تصریح کر دی ہے۔
چنانچہ قدوۃ المحققین، اسوۃ المجتہدین علامہ فہامہ والد ماجد نور اللہ مرقدہ و برد اللہ مضجعہ نے کتاب ذوالفقار میں نقل فرمایا ہے کہ اس مذہب والوں کے اعتقاد کا ماحصل یہ ہے کہ تمام عالم اور ساری دنیا عینِ ذات خدا ہے۔ فرق صرف اعتباری ہے۔ اللہ تعالٰی العیاذ باللہ کبھی اپنے آپ کو ابلیس کی شکل میں ظاہر کرتا ہے اور کبھی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صورت میں۔ اور کبھی کتے اور خنزیر کی شکل میں اور کبھی انسان کی صورت میں۔ کبھی وہ خداوندِ عالم کو دریا سے نسبت دیتے ہیں اور عالم کو موجوں سے، اورکبھی خدا کو مٹی سے اور مخلوق کو کوزے سے اور کبھی اللہ جلِّ شانُہ کو سیاہی سے تشبیہ دیتے ہیں اور مخلوقات کو حروف سے، اور تشریح یوں کرتے ہیں کہ دریا عینِ امواج ہے اور مٹی عینِ کوزہ ہے اور سیاہی عینِ حروف ہے۔ فرق صرف اعتباری ہے۔
اسی طرح خدا عینِ مخلوقات ہے۔ اس مضمون کے انہوں نے اشعار بھی نظم کئے ہیں۔ ناچ، گانے، حال اور وجد کو کمالِ معرفت اور عبادت سمجھتے ہیں۔ ان کے بزرگوں کے اشعار میں (مولانا روم کے) یہ اشعار بھی ہیں:
بامریدان آن فقیر محتشم
بایزید آمد کہ نک یزدان منم
گفت مستانہ عیان آن ذو فنون
لا الہٰ الا انا ہا فعبدون
ترجمہ: باحشمت فقیر بایزید اپنے مریدوں کے ساتھ آیا اور یہ کہا کہ زبانِ یزدان میں ہوں۔ اس صاحبِ فنون مستانے نے واضح طور پر کہا کہ میرے سوا دیگر کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔ لہٰذا آؤ میری عبادت کرو۔
صاحبِ کتاب فواتح میبذی کہتا ہے کہ حضرت سید شریف قدس سرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک عالمِ علمِ کلام اور صوفی نے باہم مناظرہ کیا۔ متکلم نے کہا میں اس خدا سے بیزار ہوں جو کتے اور بلی میں ظہور کرتا ہے۔ صوفی نے کہا میں اس خدا سے بیزار ہوں جو کتے اور بلی میں ظہور نہیں کرتا۔
مؤلف (علیین مکان) کا کہنا ہے کہ ماضی قریب میں مشائخِ صوفیہ میں سے ابنِ ملجم ملعون کے ہم نام عبدالرحمان نامی ایک شیخ کے پاس بعض ثقہ اور قابلِ اعتماد احباب کو جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ صوفی شیخ خالق کے عینِ مخلوق ہونے کا قائل اور اس کی تصریح کرنے میں ذرہ بھر پرواہ نہ کرتا تھا۔
وہ مسجد میں چراغ جلائے بیٹھا تھا۔ اتفاقاً ایک کتا مسجد میں داخل ہوا۔ اس شیخ نے کتے کو نہ مارا، نہ روکا، آنے دیا۔ کتا چراغ کے پاس پہنچا اور اسے نیچے گرا کر بجھا دیا۔ بس اب کیا تھا۔ صوفی شیخ نے اپنی نام نہاد معرفت کے کمال کا مظاہرہ کرتے ہوئے شور مچا دیا۔ سبحان اللہ، خود گھر کے چراغ نے خود کو بجھا دیا۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ۔ اس لغو اور بیہودہ کلام سے خدا کی پناہ!
نیز کتاب ذوالفقار میں اس گروہ کے لغویات کے تذکرہ میں لکھا ہے کہ ان واہیات کے منجملہ بایزید کے وہ کلمات ہیں کہ تو ہی وہ ذات اور وہ پاک خدا ہے جس نے بت اور صورت کو ایک ہی راہ میں شکستہ کر دیا ہے۔
اور ان کے ہی منجملہ شیخ فرید الدین عطار کے ابیات ہیں جن کا ماحصل یہ ہے کہ خود خدا ہی پیغمبر بنا اور پیغام لایا اور خود ہی کافر بنا اور انکار کیا۔ خود ہی ہر گناہ کی سازش کرتا ہے اور پھر خود ہی توبہ استغفار کرتا ہے۔
شیخ محی الدین ابنِ عربی، جو قائلین وحدت الوجود کا رہبر و پیشواء ہے، اس نے باوجود اس کفر اور زندیقیت کا ارتکاب کرنے کے، کتاب فصوص الحکم میں اپنے اپ کو تمام انبیاءؑ سے افضل اور اولیاء کا خاتم قرار دیا ہے۔
وہ کبھی تو حضرت نوح علیہ السلام کو خطاکار قرار دیتا ہے۔ اور کبھی فرعون کو طاہر و مطہر اور پاک و پاکیزہ شمار کرتا ہے۔ اور جناب ابوبکر اور متوکل ملعون کو ظاہر و باطن کا قطب قرار دیتا ہے۔ حالانکہ وہ خاندان اہلبیت علیہم السلام کا دشمن تھا۔ اس نے اپنے کارکنوں کو حکم دیا تھا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی قبرِ پاک کا نشان تک مٹا دیں۔ اور اس جگہ ہل چلا کر کھیتی کاشت کر دیں۔
شیخ عبدالقادر جیلانی، جو ان کا پیر دستگیر ہے، اس نے اپنی کتاب غنیۃ الطالبین میں لکھا ہے کہ روز عاشور عید کرنا چاہئے۔ اور کہا کہ جس طرح جناب ابوبکر کی وفات سوموار کی عید کے برطرف ہونے کا باعث نہیں ہوئی، حالانکہ وہ امام حسین علیہ السلام سے افضل ہے، اسی طرح امام حسین علیہ السلام کی وفات سے عاشور کی عید برطرف نہ ہو گی۔
اس گروہ کے اس قسم کے غلط اور خلافِ حق اقوال اور باطل عقائد بکثرت اور بے شمار ہیں۔ اس مقام پر اصلی غرض وحدتِ وجود کا بیان تھا۔ باقی دیگر امور طرو اللباب ذکر ہو گئے۔
وحدت الوجود کے عقیدۂ فاسدہ کا بطلان عقل اور شرعِ شریف، ہر دو کے لحاظ سے کلی طور پر ظاہر ہے۔ کیونکہ یہ سب کچھ کفرِ صریح اور الحادِ فضیح ہے۔ اور اس کو مستلزم ہے کہ عذاب و ثواب، جنت و جہنم، بعثتِ انبیاء و رسل، آسمانی کتابوں کا نازل کرنا، شریعتوں اور ادیان کا مقرر کرنا، نیز جنگ، جہاد اور دیگر عباداتِ شاقہ وغیرہ، سب کچھ غلط، بیجا، عبث، بے سود اور حماقت کا حکم رکھتے ہوں۔
اور یہی وجہ ہے کہ اہلِ تصوف کی مذمت میں بکثرت احادیث وارد ہوئی ہیں۔ جن میں سے بعض کا ذکر کر دینا اس مقام پر مناسب ہے۔ چنانچہ ان احادیث کے منجملہ وہ حدیث ہے جو حضرت امام رضا علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: لا يقول أحد بالتصوف إلا لخدعة أو ضلالة، کہ کوئی شخص تصوف کا عقیدہ نہیں رکھتا مگر وہی رکھتا ہے جو یا تو دھوکہ اور فریب کاری سے کام لینا چاہتا ہے، یا وہ گمراہی میں مبتلا ہوتا ہے، یا حماقت کا شکار ہوتا ہے۔ (حدیقۃ الشیعہ)
وہ حدیث بھی ان احادیث میں سے ہی ہے جسے شیخِ جلیل بہاؤ الدین محمد عاملی نے پیغمبر اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے روایت کیا ہے۔ اس کا حاصل مضمون یہ ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا، قیامِ قیامت سے پہلے میری امت میں ایک جماعت پیدا ہو گی جس کا نام صوفیہ ہو گا۔ وہ در حقیقت میری امت سے نہیں ہونگے بلکہ وہ یہود میں سے شمار ہونگے۔ وہ کفار سے بھی برے، بدتر اور اہلِ جہنم میں سے ہوں گے۔
نیز ایک حدیث حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے جس کا حاصل مضمون یہ ہے کہ ایک شخص نے حضرت صادق آل محمد علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ زمانِ حاضر میں ایک قوم پیدا ہو گئی ہے کہ لوگ جن کا نام صوفی رکھے ہوئے ہیں۔ حضور ؑ کا ان کے متعلق کیا ارشاد ہے؟ حضرت ؑ نے فرمایا لاریب یہ لوگ ہم اہلبیتِ رسول ؑ کے دشمن ہیں۔ جو شخص ان کی طرف مائل ہو اور ان کی طرف محبت و رغبت رکھتا ہو، وہ بھی ان میں سے ہی شمار ہو گا اور وہ ان کے ساتھ ہی محشور ہو گا۔ بہت ہی جلد ایک اور قوم پیدا ہو گی جو ہماری محبت اور دوستی کا ادعا کریں گے۔ اور باوجود اس کے، وہ صوفیوں کی طرف مائل ہوں گے۔ لباس اور گفتارِ کلام میں وہ ان کی مشابہت حاصل کریں گے۔ اور اپنے آپ کو صوفیوں کے القاب سے ملقب کریں گے۔ اور ان کے ایسے اقوال کی وہ تاویل کریں گے جو عینِ کفر اور زندیقیت ہوں گے۔ لہٰذا وہ ہم میں سے نہیں ہوں گے۔ ہم ان سے بیزار ہیں۔ جو شخص ان سے نفرت اور انکار کرے، اور ان کے اقوال کی تردید کرے، اس کا ثواب ایسے شخص کی مانند ہے جس نے آنحضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جہاد کرنے کا شرف حاصل کیا ہو۔ (حدیقۃ الشیعہ)
ان صوفیوں کے جھوٹے اقوال اور ان کے خرافات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ کشف اور شہود کا ادعاء کرتے ہیں۔ اور جس قسم کے خیالاتِ فاسدہ ان کے دل میں آتے ہیں، کہتے رہتے ہیں اور ان خیالات کو وہ کشف سے تعبیر کرتے ہیں۔
باوجودیکہ وہ یہ اعتراف کرتے ہیں کہ کشف شیطانی بھی ہوتا ہے اور رحمانی بھی، حالانکہ وہ کشفِ رحمانی کی پہچان کیلئے کوئی پختہ ضابطہ نہیں رکھتے۔ کشفِ شیطانی اور کشفِ رحمانی کے امتیاز کا دار و مدار اپنے عقلِ ناقص پر قائم کرتے ہیں۔
بعض کہتے ہیں کہ جو کشف سامنے سے اور دائیں طرف سے نمودار ہو وہ فرشتے کی طرف سے ہوتا ہے اور جو پیچھے اور بائیں جانب سے ظاہر ہو وہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔ حالانکہ شیطان تو ہر جانب سے آ سکتا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں شیطان ہی کی حکایت کرتے ہوئے اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے:
ثم لآتينہم من بين أيديہم ومن خلفہم وعن أيمانہم وعن شمائلہم (سورۃ الاعراف، آیت 17)
ابلیس نے کہا، پھر میں ان بنی آدم کے سامنے سے، ان کے پیچھے، ان کے دائیں جانب سے اور بائیں جانب، غرض ہر طرف سے ان پر حملہ کروں گا۔
مروی ہے کہ جنگِ جمل، یعنی جنگِ عائشہ، کے بعد جناب امیر المؤمنین علیہ السلام کا حسن بصری کے پاس سے گزر ہوا جو صوفیوں کا پیر تھا۔ وہ اس وقت وضو کر رہا تھا۔ جنابِ امیر ؑ نے فرمایا کہ وضو اچھی طرح، کامل طور سے بجا لاؤ۔ کہنے لگا آپ نے بہت سے ایسے لوگوں کو قتل کر دیا ہے جو شہادتین ادا کرتے اور کامل وضو کے ساتھ نمازِ پنجگانہ بجا لاتے تھے، اور آپ مجھے نصیحت کرتے ہیں؟
حضرت جناب امیر ؑ نے ارشاد فرمایا، میں نے جو کچھ کیا ہے، تو نے اسے دیکھا ہے۔ اگر میں باطل پر تھا تو پھر ہمارے دشمن کی امداد کرنے سے تو نے کیوں انحراف کیا؟ عرض کیا کہ یا امیرالمؤمنین ؑ میں سچ کہتا ہوں کہ اس جنگ کے روزِ اول میں باہر نکلا تھا۔ اور میں نے غسل بھی کیا اور حنوط بھی کر لیا۔ اور ہتھیار بھی اپنے بدن پر باندھ لئے۔ درآنحالیکہ میں اس میں ذرہ بھر شک نہ رکھتا تھا کہ ام المومنین کی امداد سے انحراف کفر ہے۔ میں چل پڑا تاآنکہ جب میں مقامِ حدیبیہ پر پہنچا تو ایک آواز میرے کان پر پڑی کہ اے حسن! کہاں جا رہے ہو؟ واپس لوٹو کہ قاتل و مقتول دونوں جہنم میں ہونگے۔
چنانچہ میں واپس اپنے گھر میں لوٹ آیا۔ مگر میں خوفزدہ ہونے کی حالت میں تھا۔ پھر جب دوسرا دن ہوا تو پھر میرے دل میں خیال آیا کہ ام المؤمنین کی مدد کرنا ضروری اور لازم ہے اور اس سے انحراف کفر ہے۔ چنانچہ پھر حسبِ روزِ اول تیار ہو کر چل پڑا۔ حتیٰ کہ اسی مقام پر پہنچا جس پر اگلے دن پہنچا تھا۔ تو وہی آواز میں نے سر کے پیچھے سے سنی۔
حضرت جناب امیر علیہ السلام نے فرمایا، یہ تو سچ کہتا ہے۔ اچھا یہ تو بتا کہ آیا تو نے پہچانا تھا کہ وہ آواز کس کی تھی؟ کہا کہ نہیں معلوم۔ حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام نے فرمایا وہ ندا دہندہ تیرا بھائی ابلیس تھا۔ اور اس نے ٹھیک کہا کیونکہ عائشہ کے گروہ میں قاتل بھی اور مقتول بھی، دونوں جہنمی ہیں۔ (طبرسی، الاحتجاج، ج1، ص250۔)
ان صوفیوں کی عادت ہے کہ وہ آیات و روایاتِ متشابہہ سے تمسک کرتے ہیں۔ اور بمفادِ آیتِ مبارکہ، فأما الذين في قلوبہم زيغ فيتبعون ما تشابہ منہ ابتغاء الفتنۃ وابتغاء تأويلہ (سورۃ آل عمران، آیت 7)، ان آیات و روایاتِ متشابہہ کی اپنی خواہش کے مطابق تفسیر کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ آیات و روایات کسی طریقہ سے بھی ان کے فاسد مدعا پر دلالت نہیں کرتیں۔
جیسے کہ ارشاد پروردگار ہے: وَ فِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ ○ وَ فِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلا تُبْصِرُونَ (سورۃ الذاریات، آیات 20، 21)۔ یہ صوفی لوگ گمان کرتے ہیں کہ اس آیت کا معنی اس طرح ہے کہ وجودِ حق تمہارے نفسوں میں ہے۔ کیا تم بصیرت نہیں رکھتے؟ یعنی اللہ تعالٰی العیاذ باللہ خود تم میں سے ہر ایک کی ذات میں موجود ہے، کیا تم دیکھ نہیں سکتے اور اطلاع حاصل نہیں کر سکتے؟
اور اس میں شک نہیں کہ یہ معنی شیطان نے ان کے دلوں میں ڈالا ہے۔ ورنہ اس کا صحیح معنی کہ جو کسی صاحبِ فہم سے پوشیدہ نہیں ہے، یہ ہے کہ اس کے وجود کے علامات خود تمہارے نفوس میں موجود ہیں۔ کیا تم ان کو دیکھ نہیں سکتے؟ اور اپنے خالق کے ہونے سے مطلع نہیں ہو سکتے؟ یہ ہے اس کا صحیح معنی، جیسا کہ اس آیت کا سیاق و سباق اسی مطلب پر دلالت کرنے کی شہادت دیتا ہے۔
نیز صوفی لوگ حدیث، لوعلم ابوذر ما في قلب سلمان لقتلہ (الصفار، محمد بن الحسن، بصائر الدرجات/ 45)، کو اس معنی پر حمل کرتے ہیں کہ حضرت سلمان ؓ کے دل میں، پناہ بخدا، وہی صوفیوں والے فاسد عقائد تھے کہ اگر وہ ظاہر ہو جاتے تو حضرت ابوذر ؓ ان کو قتل کر دیتے۔
لیکن صوفیوں کا یہ استدلال غلط ہے کیونکہ اگر اس قسم کے اجمال کے ساتھ استدلال جائز ہو تو ہر فرقۂ باطلہ اس سے استدلال کرنے لگے گا۔ اور کہہ سکے گا کہ حضرت سلمان ؓ کے دل میں ہمارے اعتقادات مستور تھے۔
صوفی اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے حضرت سلمان ؓ کو وحدۃ الوجود کی طرف کھینچیں گے۔ اہلِ غلو ان کے اعتقادات کو جناب امیر المؤمنین علیہ السلام کی الوہیت پر محمول کریں گے۔ اور مفوضہ ان کو آئمہ معصومین علیہم السلام کے خالق و رازق ہونے پر حمل کریں گے۔ حالانکہ یہ سب کچھ باطل ہے۔
لہٰذا ان احادیث سے صوفیہ کا تمسک کیسے جائز ہو سکتا ہے؟ حالانکہ متشابہات خواہ آیات ہوں، خواہ احادیث ہوں، ان کی تفسیر اپنی رائے اور خواہش کے مطابق کرنا اصلاً جائز نہیں۔ حدیث کا معنی ان اصولوں اور اعتقادات کے مطابق طے کرنا ضروری ہوتا ہے جو قرآن کریم اور احادیثِ معصومین ؑ اور دلائلِ عقلیہ سے صحیح طور پر ثابت ہیں۔ ان کے خلاف طے کرنا ہرگز جائز نہیں۔
مخفی نہ رہے کہ مجملات اور متشابہات کی تفسیر میں بے جا جسارت جائز نہیں کیونکہ مجمل اور متشابہ کے مختلف احتمالات ہوتے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک احتمال کا یقین نہیں کیا جا سکتا اگرچہ فی الواقع وہ احتمال صحیح ہی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ آئمہ معصومین علیہم السلام نے اپنے کلمات سے جو مراد لی ہو گی اسے وہ خود ہی جانتے ہیں، کہ جو ان کے کہنے والے ہیں۔
اور ایسے مقامات میں بلادلیل کسی معنی کو اختیار کرنے اور اسے حتمی قرار دینے کی نسبت عدمِ علم کا اعتراف کر لینا اسلم اور زیادہ مناسب ہے۔ اور خلافِ واقعہ معنی کو اختیار کرنے کا جرم انتہائی فحش اور قبیح تر معاملہ ہے۔
ہم تجویز کے طریقہ پر خصم کے استدلال کو باطل کرنے پر چند دلائل کا ذکر کرتے ہیں۔ تاکہ بمفادِ اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال، خصم کا استدلال ہباء منشورا ہو جائے۔ اور جب صرف امکان اور احتمال کا یہ حکم ہے کہ اس سے استدلال باطل ہو جاتا ہے تو پھر جب متعدد قوی احتمالات پائے جائیں تو اس صورت میں طرفِ مقابل کا حکم ذراتِ غبار کی طرح فضا میں اڑتا ہوا نظر آئے گا۔
لہٰذا ہم کہتے ہیں کہ اس حدیث میں چند احتمال اس کے اجمال کے سبب راہ پا سکتے ہیں۔ تو انہوں نے پھر کہاں سے یہ علم حاصل کر لیا کہ آنحضرت ؑ کی مراد وہی فاسد معنی تھا جسے انہوں نے تجویز کیا ہے؟
ایسا کیوں نہیں جائز کہ جب حضرت ابوذر ؓ کو حضرت سلمان ؓ کے کمالات اور ان کے بلند پایہ مقامات اور منازل پر اطلاع ہو جاتی تو وہ ان کے متحمل نہ ہو سکتے۔ اور آپس کی محبت اور مودت، حسد اور عناد سے تبدیل ہو جاتی اور قتل اور فساد تک نوبت پہنچ جاتی؟ بعض روایات میں وارد ہوا ہے کہ بعض انبیاء ؑ کو جب اہلبیت ؑ کے مدارج کی اطلاع حاصل ہوئی تو برداشت نہ کر سکے۔ لہٰذا اگر حضرت ابوذر ؓ حضرت سلمان ؓ کے مدارج کو معلوم کر کے برداشت نہ کر سکیں تو یہ کوئی بعید نہیں۔
یا یہ کہ اگر حضرت ابوذر ؓ کو حضرت سلمان ؓ کے علم، ان کے بلند پایہ مقام اور کرامتوں کا علم ہو جاتا تو ہو سکتا تھا وہ گمان کرتے کہ یہ کرامتیں اور اس پایہ کا علم نبی اور وصی کے غیر کو حاصل ہی نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا حضرت سلمان ؓ اپنے اس ادعاء میں متصنع اور جعل ساز ہیں۔ اور یہ خلافِ عادت امور جن کو وہ اپنی کرامتیں شمار کرتے ہیں، جادو کے ذریعہ ظاہر کرتے ہیں۔ اور جادوگر کا قتل کرنا جائز ہے اور اس کی خونریزی حلال ہے۔
یا یہ کہ حضرت سلمان ؓ آئمہ اطہار علیہم السلام کے ایسے مناقبِ جلیلہ اور مراتبِ نبیلہ کو جانتے تھے اور ان کی معرفت رکھتے تھے کہ ہر شخص ان کمالات و فضائل کے علم و معرفت کو برداشت نہیں کر سکتا اور اس طرح وہ چاہِ ہلاکت و ضلالت میں گر کر تباہ ہو جاتا ہے۔
جس طرح کہ ایک جماعت ان کے بلند مرتبہ مدارج اور جلیل القدر کمالات و فضائل پر اور ان کے خلافِ عادت کرامات و معجزات پر اطلاع پا کر حسد و بغض کے باعث ہلاک و تباہ ہو گئے۔ جیسے کہ ابلیس لعین ہلاک اور برباد ہو گیا جبکہ اللہ جلِ شانُہ نے اسے حضرت آدم صفی اللہ علیہ السلام کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا حکم فرمایا تو اس نے حکمِ رب العالمین کے مقابلہ میں تکبر اور انکار کو اختیار کیا اور یہ چیز اس کی ہلاکت کا باعث ہوئی۔
اور کچھ لوگ ان نفوس قدسیہ کے فضائل و معجزات پر مطلع ہو کر حد سے متجاوز ہو گئے۔ اور ان کی الوہیت، خالقیت اور دیگر اس قسم کے صفات کے معتقد ہو جانے کے باعث ہلاک ہو گئے۔
اور اسی خطرہ کے پیشِ نظر آنحضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں پر جناب امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے کئی ایک فضائل کو ظاہر نہیں فرماتے تھے۔ جیسے کہ سورہ العادیات کے شانِ نزول میں جو روایت آئی ہے اس میں منقول ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے فرمایا کہ اگر مجھے اپنی امت سے یہ ڈر نہ ہوتا کہ میرے امت کے کچھ لوگ تیرے متعلق وہی کہنے لگیں گے جو قومِ نصارٰی نے حضرت عیسٰی ابن مریم ؑ کے متعلق کہا تھا تو میں آج تیرے شان میں ایسی چیز کو بیان کرتا کہ جس کے باعث تو جس گروہ کے پاس سے گزرتا وہ تیرے قدموں کے نیچے سے خاک اٹھا کر اس سے تبرک حاصل کرتے۔
لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ڈر تھا کہ جس طرح نصارٰی نے جب دیکھا کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام نے اذنِ خداوندِ عالم سے بعض مردے زندہ کر دکھائے تو وہ ان کی الوہیت کے قائل ہو گئے۔ اسی طرح میری امت سے بھی حضرت جناب امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے متعلق ایسی ہی صورت کا مظاہرہ ہونے لگے گا۔
لہٰذا آنحضرتؐ نے جناب امیرالمؤمنینؑ کی ایسی فضیلت کو بیان نہ فرمایا۔ لیکن شیطان نے لوگوں کو پھر بھی نہ چھوڑا۔ لہٰذا جناب امیرالمؤمنین علیہ السلام کے متعلق بھی لوگوں نے جو کچھ کہا وہ قولِ نصارٰی کی طرح انتہائی بے جا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ جناب امیرالمؤمنین علیہ السلام فرمایا کرتے تھے: هَلَكَ فِيَّ رَجُلانِ: مُحِبٌّ غالٍ ، و مُبغِضٌ قالٍ، یعنی میرے متعلق دو گروہ ہلاک ہوں گے: ایک وہ دوست جو افراط سے کام لیں گے اور ناحق باتیں میری طرف منسوب کریں گے اور دوسرے وہ دشمن جو تفریط سے کام لےکر کینہ و دشمنی میں آگے بڑھ جائیں گے۔ (نہج البلاغہ، خطبہ 127)
اسی وجہ سے احادیث میں وارد ہوا ہے کہ آئمۂ ہدیٰ علہیم السلام کا معاملہ نہایت سخت اور دشوار ترین ہے۔ اس کا متحمل یا تو نبی مرسل ہو سکتا ہے یا ملکِ مقرب، یا وہ مومن کہ اللہ تعالٰی نے جس کے دل کا ایمان کیلئے امتحان لیا ہو۔ کیونکہ حسبِ فرمانِ باری تعالٰی عز اسمہ فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَن تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوْا. (سورہ ہود، آیت 112) عمل کرنا انتہائی دشوار ہے۔ حتیٰ کہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، مجھے سورہ ہود نے بوڑھا کر دیا۔ ایسے میں بقیہ مخلوق کے متعلق کیا کہا جا سکتا ہے؟
لہٰذا کیا تعجب ہے کہ اگر حضرت ابوذر ؓ آئمہ علیہم السلام کے مراتبِ عالیہ اور کراماتِ رفیعہ پر مطلع ہو جاتے تو راہِ استقامت سے بہک کر دوسری طرف قدم رکھ دیتے۔ اسی لئے حضرت سلمان ؓ اسرارِ مکنونہ کو حضرت ابوذر ؓ کے سامنے ظاہر کرنے سے گریز فرماتے تھے۔ کیونکہ ان کے ظاہر کرنے سے ابوذر ؓ کے واجب القتل ہو جانے کا اندشہ تھا۔
لہٰذا اس تاویل کے مطابق لفظ ”لقتلہ“ کی ضمیر مفعول، خود حضرت ابوذر ؓ، کی طرف راجع ہو گی۔
نیز یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جس طرح سابقہ احتمالات میں ضمیر مفعول حضرت سلمان ؓ کی طرف راجع ہوتی ہے اسی طرح اس تاویل میں بھی حضرت سلمان ؓ ہی کی طرف راجع ہو۔ اور حضرت سلمان ؓ کے ان اسرار کو مخفی رکھنے کا سبب یہ ہو کہ وہ اسرار اہلبیت علیہم السلام کے مخصوص مناقب ہوں۔ اور حضرت سلمان ؓ حسب ارشاد پاک، سلمان منا اہل البیت، ان فضائل و مناقب کی معرفت سے خصوصیت رکھتے تھے۔ اور حضرت ابوذر ان کی کنہ اور حقیقت کو معلوم نہیں کر سکتے تھے۔ لہٰذا اگر حضرت سلمان ؓ ان کو مطلع کر دیتے تو ہو سکتا تھا حضرت ابوذر ؓ اسے غلو خیال کر کے حضرت سلمان ؓ کو قتل کر دیتے۔
علامہ طبرسی علیہ الرحمہ نے احتجاج میں نقل کیا ہے کہ حضرت سلمان ؓ فرمایا کرتے تھے کہ میں جو فضائل علی ابن ابی طالبؑ کے جانتا ہوں، اگر ان میں سے بعض تمہارے سامنے بیان کر دوں تو بعض لوگ کہیں گے کہ سلمان ؓ مجنون اور دیوانہ ہے۔ اور بعض لوگ کہیں گے کہ خدا سلمان ؓ کے قاتل کو بخش دے۔
حالانکہ سلمان ؓ جو کچھ جانتے تھے، وہ ہرگز مسئلہ وحدۃ الوجود یا غلو کا مضمون نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ فرقۂ صوفیہ اسے بزعم خود وحدۃ الوجود والی توحید پر محمول کرتے ہیں۔ اور غالی لوگ اسے غلو کے مضمون پر محمول کرتے ہیں۔ جیسے بعض غالیوں نے گذشتہ حدیث، لقلت فیک الیوم مقالا، کو غلو پر ہی محمول کیا ہے۔ حالانکہ آنحضرتؐ نے جناب امیرؑ کی اس فضیلت کو اس لئے مخفی رکھا کہ لوگ غلو میں نہ پڑ جائیں۔ یعنی ان کو غلو سے محفوظ رکھنے کیلئے اس فضیلت کو پردۂ اخفا میں رکھا۔ نہ یہ کہ وہ عینِ غلو اور ان کا باطل عقیدہ تھا جسے چھپایا گیا۔ یعنی جس چیز کو پردہ پوش رکھا گیا وہ غلو نہ تھا بلکہ حق تھا۔ مگر ایسا حق تھا جس کے باعث نارسا عقلوں کے غلو میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ تھا۔
مختصر یہ کہ جن اعتقادات کا فاسد ہونا ادلۂ عقلیہ و نقلیہ کے ذریعہ ثابت ہے جیسے مثلاً وحدۃ الوجود اور عالمِ دنیا کے پیدا کرنے اور اس کی تدبیر کے انجام دینے کو غیر اللہ کی طرف نسبت دینا، وہ مذکورہ بالا احادیث سے ہرگز ثابت نہیں ہو سکتے۔ اور حضرت سلمان ؓ و ابوذر ؓ کے بعض دیگر محمل بھی ہو سکتے ہیں۔ جن کو ہم نے خوفِ تطویل کے باعث ترک کر دیا ہے۔
غرض صوفیہ کا عقیدہ ایک ایسا امر ہے کہ جس کے بطلان پر بکثرت احادیث دلالت کرتے ہیں۔ لہٰذا ان مبہم احادیث سے ان کا عقیدہ کس طرح مراد ہو سکتا ہے؟
جو احادیث صوفیہ کے اس اعتقاد کے بطلان پر دلالت کرتے ہیں ان میں سے ایک حدیث وہ ہے جسے شیخِ جلیل محمد بن یعقوب کلینی نے کافی میں بیان کیا ہے: إِنَّ اللَّهَ خِلْوٌ مِنْ خَلْقِهِ وَ خَلْقَهُ خِلْوٌ مِنْهُ.
یعنی حق تعالٰی اپنی مخلوق سے جداگانہ شخصیت رکھتا ہے اور مخلوقات اس سے خالی اور جداگانہ ہیں۔ یعنی خالق و مخلوق باہم جداگانہ اور مباینتِ کلی رکھتے ہیں۔ ایک دوسرے میں سما نہیں سکتے۔ (کلینی، الکافی، جلد 1، بَابُ إِطْلَاقِ الْقَوْلِ بِأَنَّهُ شَيْءٌ، صفحہ 83، حدیث 3، دارالکتب الاسلامیہ، تہران 1407 ہجری)
نیز ان ہی احادیث میں سے یونس ابن عبدالرحمان کا وہ خط ہے جو اس نے حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی طرف لکھا اور حضرتؑ نے اس کا جواب بھیجا تھا۔ چنانچہ تحریر ہے: کتبت الی ابی الحسن الرضاء سئلتہ عن آدم ھل کان فیہ من جوہریۃ الرب شئ فکتب الی لیس صاحب ہذہ المسئلۃ علی شئ من السنۃ زندیق.
یونس کہتے ہیں کہ میں نے امام علی رضا علیہ السلام کی خدمت میں خط ارسال کر کے ان سے سوال کیا کہ آیا حضرت آدم علیہ السلام میں ربوبیت کا کوئی جوہر تھا؟ تو آنحضرتؑ نے جواب میں لکھا کہ اس عقیدہ کا معتقد سنتِ رسول اللہ ؐ پر نہیں ہے بلکہ وہ زندیق ہے۔
مذہبِ صوفیہ کے بطلان پر دلالت کرنے والے احادیث میں سے ہی ہے جناب امیر المؤمنین علیہ السلام کا وہ ارشاد، جو آپ نے اپنے ایک خطبہ میں صادر فرمایا کہ: الحمد للہ الواحد الاحد الصمد المفرد الذی لا من شئ کان و لا من شئ خلق ما کان قدرۃ بان بہا من الاشیاء و بانت الاشیاء منہ.
یعنی ہر حمد و ثناء اس خداوند عالم وحدہٗ لا شریک بے مثل و بے مثال کا حق ہے جو تمام مخلوقات کا مرجع ہے۔ جو نہ کسی شے سے پیدا ہوا نہ ہی اس نے کائنات کو کسی شے سے پیدا کیا ہے۔ یعنی عالمِ کائنات کو پیدا کرنے میں وہ مادہ اور مدت کی احتیاج نہیں رکھتا۔ اس نے ساری کائنات کو اپنی اس قدرتِ کاملہ سے پیدا کیا جس میں وہ تمام کائنات سے مباینت اور امتیاز رکھتا ہے۔ اور ساری کائنات اس کی ذات والا صفات سے مباینت رکھتی ہے۔
اس مضمون کی بکثرت روایات وارد ہوئی ہیں۔ لیکن جو مقدار ان احادیث کی ہم نے نقل کر دی ہے، وہ صوفیہ کے عقیدۂ فاسدہ کے بطلان کیلئے کافی اور وافی ہے۔ کیونکہ جب اللہ تعالٰی اوراس کی مخلوقات باہم افتراق اور مباینتِ کلی رکھتے ہیں تو پھر صوفیہ کا وحدت الوجود والا عقیدہ کیسے ثابت ہو سکتا ہے؟
ذرا دیکھئے تو، صوفیہ کا پیر ابنِ عربی کہتا ہے:
ففي الحق عين الخلق إن كنت ذا عين
وفي الخلق عين الحق إن كنت ذا عقل
فإن كنت ذا عين وعقل معا فما
ترى غير شئ واحد فيه بالفعل
(فتوحات مکیہ، جلد 3، صفحہ 290، دار صادر، بيروت)
ترجمہ: اگر تو چشمِ بینا رکھنے والا ہے تو حق تعالٰی میں عین خلق دکھائی دے گی، اور اگر تو عقل رکھنے والا ہے تو خلق میں تجھے عین حق تعالٰی نظر آئے گا۔ اور اگر تو چشمِ بینا اور عقل، دونوں رکھتا ہے تو تو اس میں سوائے ایک ہی چیز کے اور کچھ نہیں دیکھے گا۔
ابنِ عربی کا یہ کلامِ مختل النظام صراحتہً روایاتِ مذکورہ اور دیگر بہت سی احادیث کے خلاف ہے۔ سبحان اللہ! کس قدر مقامِ تعجب ہے کہ حضرات آئمہ معصومین علیہم السلام جو تمام لوگوں سے زیادہ عقلمند ہیں، وہ تو فرماتے ہیں کہ خلق خداوندِ عالم کے متبائن ہے۔ اورخداوندِ عالم مخلوقات سے جداگانہ اور الگ ہے۔ لیکن یہ بے عقل اور بے تمیز اللہ جل شانُہ حق تعالٰی کو مخلوقات میں ثابت کر رہا ہے اور اسی طرح مخلوقات کے اللہ تعالٰی میں ہونے کا ادعا کر رہا ہے۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ.
اور پھر طرّہ یہ کہ اس خیال کو عین عقلمندی شمار کر رہا ہے۔ حالانکہ اس سے بڑھ کر کوئی جہالت اور حماقت ہو ہی نہیں سکتی۔ اور باوجود اس کےلوگ اسے اپنا پیشواء قرار دیتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی مضحکہ خیر اور تعجب انگیز معاملہ ہے۔
مآخذ: علامہ سید گلاب علی شاہ نقوی، ”خزینۂ ایمانیہ“، ترجمہ: حدیقۂ سلطانیہ، مؤلفہ سید العلماء سید حسین نقوی لکھنؤی (متوفیٰ 1856ء) ابنِ غفران مآب، طبع اول، صفحات 168 – 191، مکتبہ کاظمیہ، شیعہ میانی، ملتان۔