آڈیوز

ادویتا ویدانتا اور نظریۂ وحدت الوجود – مولانا نعمت علی سدھو

167 ملاحظات

ڈاؤن لوڈ کریں

ہندو فکر میں چار کتابیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں جن کو وَید کہا جاتا ہے۔ رِگ وَید، سَام وَید، یَاجر وَید اور اَتھر وَید۔ ان میں مختلف خداؤں کی جنگ اور باہمی کشمکش کی کہانیاں بنائی گئی ہیں۔ ان کتابوں کے لکھنے والوں کے نام اور زمانے معلوم نہیں ہیں۔

بعد میں مختلف ہندو مفکرین نے ان کی تفسیریں لکھنا شروع کیں تو وہ اُپنشد کہلائیں۔ یہ تعداد میں ڈیڑھ سو سے زیادہ ہیں۔ شاہ جہان کے بڑے بیٹے دارا شکوہ نے 1658 عیسوی میں ان میں سے پچاس اہم تفسیروں کا فارسی میں ترجمہ کرایا تھا۔ مغرب جس وقت جدید علم پر تحقیق کر رہا تھا اس وقت مغل دربار تصوف جیسے ذہنی نشے اور لہو و لعب میں پڑا ہوا تھا۔

اُپنشدوں میں وحدت وجود کا تصور پیش کیا گیا ہے۔ یہ دینی توحید نہیں، بلکہ صوفیانہ توحید ہے۔ خدا کو ایک ماننے کے بجائے وجود کو ایک قرار دیتے ہیں۔ اپنشدوں کا مرکزی خیال برہمن اور آتمن کی یکسانی ہے۔ برہمن سے مراد خدا ہے۔ آتمن سے مراد انسان کا نفسِ کلی ہے۔ انسان کے نفسِ فردی کو جِیوا کہتے ہیں۔

آتمن ہندو مذہب کا ایک تصور ہے۔ جیسے صوفی سعدی بھی کہتا ہے کہ بنی آدم اعضائے یک دیگرند۔ یا جیسے اردو میں اقبال کہتا ہے:

فرد قائم ربطِ ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں

اسلام میں انسانوں کے لئے آتمن یا نفسِ کلی کا کوئی تصور نہیں۔ واقعیت بھی یہی ہے کہ ہر انسان اپنی ذات میں دوسروں سے منفرد ہے، ہر کسی کی کیمسٹری الگ ہے۔ اسی لئے اسلام میں مباحات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔

اپنشدوں میں آتمن اور برہمن کی وحدت کا مضمون باندھا گیا ہے۔ جنگی داستانوں کی کتاب گِیتا میں بھی اپنشدوں کا یہ مرکزی خیال آیا ہے۔ گیتا مہا بھارت کا حصہ ہے جس میں کرشنا اور ارجنا کی گفتگو بیان ہوئی ہے۔ بطورِ مثال گیتا کی پندرہویں فصل میں کرشنا کہتا ہے:

”اے ارجنا! سورج کی روشنی میں ہوں، چاند کی چمک میں ہوں، آگ کو میرا نور سمجھو۔ میں زمین پر اتر کر جانداروں کی نگہبانی کر رہا ہوں۔ پہاڑ اور کھیت میں ہوں۔ میں وہ ہوں جو آگ اور ہوا بن کر جانوروں کے پیٹ میں غذا کو ہضم کرتا ہے اور اسے آگے لے جاتا ہے۔ میں سبھی جانداروں کے دل کے اندر ہوں۔ میں عقلاء کا حافظہ اور ذہانت ہوں، میں علم کو پیدا کرنے والا اور اسے جاننے والا ہوں۔“

چھاندُو گِیَہ اپنشد میں ہے:

”یہ تمام کائنات اپنے جوہر میں وہ ہے، وہ صداقت ہے، وہ آقا ہے اور وہ تو ہے۔“

چھاندُو گِیَہ اپنشد کے باب پنجم میں عالمِ کثرت کو غیر حقیقی قرار دیا گیا ہے۔ شَوِیتا شَوِترا اپنشد میں پہلے پہل اس خیال کا اظہار کیا گیا ہے کہ مادی دنیا فریبِ نگاہ ہے جسے برہمن نے مداری کے کھیل کی طرح ہماری نظروں کے سامنے کھڑا کر دیا ہے۔

اپنشدوں کی تعلیمات کا حاصل یہ ہے کہ برہمن اور آتمن ایک ہیں۔ برہمن سے کائنات کے صدور کو فلوطین کی طرح استعاروں کی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔ کائنات برہمن سے اس طرح صادر ہوئی جیسے مکڑی سے جالا یا سورج سے شعاعیں صادر ہوتی ہیں۔ لفظ برہمن برہ سے مشتق ہے جس کا معنیٰ ہے پھیلنا، نشو و نما پانا۔ گویا وہ حقیقتِ کبریٰ جو پھیلتی ہے، وہ ہر جگہ محیط ہے۔

تاریخی اعتبار سے اپنشدوں کے لکھنے کا عمل بُدھا کی پیدائش سے پہلے شروع ہو چکا تھا۔ بدھا کی پیدائش چھٹی صدی قبلِ مسیح کی ہے۔ یونان کے فلسفے کی ابتداء بھی اسی زمانے میں ہوئی تھی۔ تھالِس وغیرہ اسی زمانے کے ہیں۔ وَیدوں کی تفسیریں لکھنے کا سلسلہ تقریبا دو ہزار سال تک جاری رہا۔ آخری اُپنشدیں پندرہویں صدی عیسوی میں لکھی گئیں۔

آٹھویں صدی عیسوی، یعنی دوسری صدی ہجری، میں جنوبی ہندوستان کے علاقے کیرالہ میں شنکر اچاریہ پیدا ہوا۔ اس نے تعلیم اور تبلیغ کیلئے ہندوستان بھر کے سفر کئے اور شمالی ہند میں ہمالیہ کے دامن میں فوت ہوا۔ اس نے اَدویتا وِیدانتا کا فلسفہ لکھا۔ ویدانتوں کا نمبر اپنشدوں کے بعد آتا ہے، یعنی یہ ہندو مذہب کی فلسفی شکل ہے۔ پہلے وَید، پھر اُپنشد اور پھر وَیدانت!

اَدویتا کا مطلب عدم ثَنویت یا دُوئی کی نفی ہے۔ یعنی کائنات میں ایک ہی وجود ہے، دوسرا کوئی نہیں۔ وَیدانتا کا مطلب وَیدوں کے علم کا تمام اور کمال ہے۔ اس میں وَیدوں کی تشریح کرتے ہوئے بُدھا کے خیالات کو بھی استعمال کیا گیا ہے۔ اس میں دنیا کو وحدت الوجود کی عینک سے دیکھا گیا ہے۔ عالمِ اسلام میں یہ بنی امیہ کے زوال اور بنی عباس کی حکومت کی ابتداء کا زمانہ ہے۔

شنکر اچاریہ عرفانِ نظری کی دنیا میں ابنِ عربی سے زیادہ اہم ہے۔ دنیا میں بڑے نظری عرفاء کو گنا جائے تو شنکر اچاریہ کا نام ضرور آتا ہے۔ یہ ابنِ عربی سے پانچ سو سال پہلے گزرا ہے۔ ابن عربی کے بنیادی فکری اصول اَدویتا وَیدانتا میں مل جاتے ہیں۔ شنکر اچاریہ کا فلسفہ شروع میں زیادہ مشہور نہیں ہوا لیکن چودہویں صدی عیسوی کے بعد ہندو مذہب کا اہم ترین فلسفہ بن گیا۔

شنکر اچاریہ وجود کی وحدتِ شخصی کا عقیدہ رکھتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ برہمن، یعنی خدا، کو دو طریقوں سے پہچانا جا سکتا ہے: نِیر گُونہ برہمن اور سَگُونہ برہمن۔

نِیر گُونہ برہمن، یعنی صفات کو نکال کے خود ذات خدا کی معرفت حاصل کرنا۔ وہ ذات جو کہ گونہ نہیں رکھتی، نام اور صفات نہیں رکھتی۔ یہ وہی ہے جسے ابنِ عربی مقامِ احدیت کہتا ہے۔ سَگُونہ برہمن یعنی خدائے مُتصف کو پہچاننا، ابنِ عربی کے الفاظ میں مقامِ واحدیت، مقام جلا و استجلا، فیضِ اقدس و مقدس، یعنی خدائے متجلی تک پہنچنا!

عرفانِ نظری لفظوں کا جادو جگانے کا نام ہے۔ اس طرح جب بہت سی اصطلاحات اور الفاظ بولتے ہیں تو سننے والا لفاظی میں الجھ کر سمجھتا ہے کہ انہوں نے ضرور کوئی اہم بات کہی ہے۔

ابنِ عربی سَگُونہ برہمن کو خدائے متجلی کی شناخت کہتا ہے۔ کبھی یہ تجلی ذات کے اندر سے ہوتی ہے تو اعیانِ ثابتہ اور صفاتِ حق کو ظاہر کرتی ہے۔ کبھی یہ ذات سے باہر ہوتی ہے تو خدا سبھی ماہیات اور اعیانِ وجودی سے متصف ہو جاتا ہے۔

شنکر اچاریہ کہتا ہے کہ جب انسان میں بصیرت اور معرفت کم ہو تو وہ سَگُونہ برہمن کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ کم فہمی کا نتیجہ ہوتا ہے۔

وہ اس کی مثال دیتا ہے۔ کہتا ہے کہ فرض کریں رات کے وقت آپ گھر جاتے ہیں اور آپ کا بچہ شور مچاتے ہوئے کہتا ہے کہ یہاں سانپ ہے۔ آپ جب چراغ لے کر آتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ وہ تو رسی تھی جسے بچہ سانپ سمجھ بیٹھا تھا۔ وہ کہتا ہے کہ اہل دل کیلئے یہ کائنات برہمن کے سوا کچھ نہیں ہے۔ عالمِ ہستی بطورِ کلی خدا ہے۔ ایسا نہیں کہ خدا کسی چیز کا خالق ہو۔ یہی بات ملا صدرا کہتا ہے کہ ان بسیط الحقیقۃ کل الاشیاء۔

لوگ اسلئے کثرت کو دیکھتے ہیں کہ بصیرت نہیں رکھتے۔ مختلف اسماء ان کو دھوکہ دیتے ہیں۔ شنکر کے مطابق مخلوق حقیقت میں ہے ہی نہیں۔ عرفانِ نظری میں خلقت کے بجائے صُدور کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ تجلی اور ظُہور کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔

یہاں اس بات کی طرف توجہ کریں کہ تجلی کا لفظ قرآن میں بھی آیا ہے۔ سورہ اعراف کی آیت 143 میں آیا ہے:

فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلۡجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّا وَّ خَرَّ مُوۡسٰی صَعِقًا.

”پھر جب ان کے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ غش کھا کر گر پڑے۔“

لیکن یہاں تجلی فعلِ خدا ہے۔ خود پہاڑ کا وجود تجلی نہیں ہے، وہ الگ سے وجود رکھتا ہے، اس پر بجلی گری۔ اس آیت کی تفسیر سورہ بقرہ کی آیت 55 سے ہوتی ہے جہاں صاعقہ، یعنی بجلی، کا لفظ آیا ہے۔ یعنی ان پر بجلی گرا دی۔

وَ اِذۡ قُلۡتُمۡ یٰمُوۡسٰی لَنۡ نُّؤۡمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللّٰہَ جَہۡرَۃً فَاَخَذَتۡکُمُ الصّٰعِقَۃُ وَ اَنۡتُمۡ تَنۡظُرُوۡنَ.

”اور (یاد کرو وہ وقت) جب تم نے کہا: اے موسیٰ! ہم آپ پر ہرگز یقین نہیں کریں گے جب تک ہم خدا کو علانیہ نہ دیکھ لیں، اس پر بجلی نے تمہیں گرفت میں لے لیا اور تم دیکھتے رہ گئے۔“

شنکر اچاریہ اور دیگر فلسفی عرفا کے نزدیک تجلی سے مراد رشحی تجلی ہے، کہ خدا کی ذات بہتی ہے اور مختلف اعیان میں متعین ہوتی ہے۔ ایک ہی وجود ہے اور وہ تشکیک اور تنزلات کی شکل میں ظہور کرتا ہے تو کائنات بنتی ہے۔

صوفیوں پر ویدانتوں کے گہرے اثرات ہوئے۔ وحدۃ الوجود کے علاوہ ویدانت اور تصوف میں مندرجہ ذیل باتوں کا اشتراک ہے:

1۔ دونوں پَرانا یَام یعنی حَبس دَم کرتے ہیں۔

2۔ دونوں دِھیان یعنی مراقبہ کرتے ہیں۔

3۔ دونوں گُرو یعنی مرشد کی خدمت کو اہم سمجھتے ہیں۔

4۔ دونوں تَپ یعنی ریاضت اور فاقہ کرتے ہیں۔

5۔ دونوں مَالا جپتے ہیں اور ذکر اذکار میں محو رہتے ہیں۔

6۔ دونوں انسانی آتمن کے برہمن یا وجودِ مطلق میں جذب و اتحاد کے قائل ہیں۔

بھگت شاعروں کے کلام میں رادھا جس وارفتگی اور سپردگی سے کرشن کے گیت گاتی ہے اسی والہانہ اضطراب سے خواجہ غلام فرید کی کافیوں میں سسی اپنے پنوں کے فراق میں نالہ کناں ہے۔

7۔ دونوں مادے کو شر سمجھتے ہیں۔ رہبانیت کے قائل ہیں۔ ان کے خیال میں آتمن، برہمن کا جزو ہے جو مادے کی قید میں اسیر ہے۔ وہ معرفتِ نفس حاصل کر کے دوبارہ اپنے ماخذِ حقیقی میں جذب ہو جاتا ہے۔

8۔ دونوں عالم کو قدیم سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق وقت کی حرکت قوس نزولی اور قوس صعودی کی شکل میں دائروی ہے۔ یہ وقت کا ایک خرافاتی اور باطل تصور ہے۔ وقت کی حرکت خطی اور نسبی ہے۔ عالم قدیم نہیں، بلکہ حادث ہے۔ مولا علی علیہ السلام کا فرمان ہے کہ:

وإنما كلامه سبحانه فعل منه أنشأه. ومثله لم يكن من قبل ذلك كائنا، ولو كان قديما لكان إلها ثانيا.

”اللہ سبحانہٗ و تعالٰی کا کلام بس اس کا ایجاد کردہ فعل ہے۔ اور اس طرح کا کلام پہلے سے موجود نہیں ہو سکتا۔ اور اگر وہ قدیم ہوتا تو دوسرا خدا ہوتا۔“ (نہج البلاغہ، خطبہ 186)

جب کلامِ خدا قدیم نہیں ہو سکتا تو مخلوقات کیسے قدیم ہو سکتی ہیں؟

یہاں ایک نہایت قابلِ غور بات یہ ہے کہ شنکر اچاریہ امام علی رضا علیہ السلام کا معاصر ہے۔ اگر وحدت الوجود اور کشف وغیرہ میں کوئی حقیقت ہوتی تو آئمۂ معصومین علیہم السلام بھی اس زمانے میں واضح الفاظ میں ایسی باتیں کرتے۔ لیکن جب ہم احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں خالق و مخلوق میں ذاتی جدائی کی تلقین ملتی ہے۔ مثال کے طور پر شیخ طوسی نے نقل کیا ہے کہ:

قَالَ يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ كَتَبْتُ إِلَى أَبِي الْحَسَنِ الرِّضَا ع سَأَلْتُهُ عَنْ آدَمَ هَلْ كَانَ فِيهِ مِنْ جَوْهَرِيَّةِ الرَّبِّ شَيْ‏ءٌ فَكَتَبَ إِلَيَّ جَوَابَ كِتَابِي لَيْسَ صَاحِبُ هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ عَلَى شَيْ‏ءٍ مِنَ السُّنَّةِ زِنْدِيقٌ.

ترجمہ: ”یونس بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں نے امام علی رضا ؑ سے پوچھا کہ کیا حضرتِ آدم ؑ میں جوہرِ رب سے کچھ ہے؟ امام نے کہا نہیں، ایسا کہنے والے کا عقیدہ سنت کے مطابق نہیں اور وہ زندیق ہے۔“ (شیخ طوسی ؒ، اختيار معرفۃ الرجال الکشی، النص، ص: 495)

شیخ صدوق کی کتاب التوحید کے ساتویں باب میں تیسری حدیث کو دیکھئے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:

انّ اللّه تبارك و تعالى، خلو من خلقه وخلقه خلو منه.

ترجمہ : ”اللہ تبارک و تعالٰی حقیقتِ خلق سے خالی ہے اور خلق، حقیقتِ خدا سے خالی ہے۔“ (شیخ صدوق ؒ، کتاب التوحيد، صفحہ 105)

جو لوگ ملا صدرا کی باتوں میں آ کر حرکتِ جوہری کے قائل ہیں اور خدا کی طرف سیر و سلوک کا عقیدہ رکھتے ہیں، وہ مولا علی علیہ السلام کے اس فرمان پر غور کریں:

لا يجري عليه السكون والحركة. وكيف يجري عليه ما هو أجراه،

ترجمہ: ”حرکت و سکون اس پر طاری نہیں ہو سکتے، بھلا جو چیز اس نے مخلوقات پر طاری کی ہو وہ اس پر کیونکر طاری ہو سکتی ہے؟“ (نہج البلاغہ، خطبہ 186)

اسی خطبے میں افلاطون کے عالمِ مثال کے نظریئے (Platonic idealism) کو بھی رد کیا گیا ہے۔ مولا علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

خلق الخلائق على غير مثال خلا من غيره ولم يستعن على خلقها بأحد من خلقه.

”اُس نے مخلوقات کو بغیر کسی نمونے کے اور اپنے غیر سے بری بنایا اور ان کے بنانے میں اُس نے مخلوقات میں سے کسی ایک کی بھی مدد نہ چاہی۔“ (نہج البلاغہ، خطبہ 186)

یہ اس موضوع کا ایک مختصر تعارف تھا۔ مزید معلومات کیلئے تحفۂ صوفیہ کا مطالعہ کریں۔ نیز انٹرنیٹ پر دیگر محققین کی کتابوں کو بھی سرچ کیا جا سکتا ہے۔ تصوف کے جاہلانہ نظریات کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے اور جدید سائنس بھی ان کو رد کر چکی ہے۔

 

اسی زمرے میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button