مضامین

برصغیر میں شیعہ صوفی تعلقات

317 ملاحظات

شیعہ پاکستان کی پچیس کروڑ آبادی کا دس فیصد اور ہندوستان کی ڈیڑھ ارب آبادی کا دو فیصد ہیں۔ بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا وغیرہ میں شیعوں کی آبادی نہایت کم ہے۔

یوں برصغیر کے شیعوں کی تعداد چار کروڑ کے لگ بھگ بنتی ہے جو ایران کی کل آبادی کا تقریباً نصف ہے۔ برصغیر کے شیعہ جغرافیائی طور پر بکھرے ہوئے ہیں، یوں انکی آبادی شہروں اور دیہاتوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ یہ بات برصغیر کو دوسرے مسلم اکثریتی خطوں سے جدا کرتی ہے جہاں ماضی میں ظلم و ستم سے بچنے کی خاطر شیعہ خاص علاقوں میں اکٹھے ہو گئے جس کا نتیجہ جدید دور میں مذہبی بنیاد پر سیاسی ڈھانچے ابھرنے کی شکل میں نکلا۔

پاکستان میں بیشتر شیعہ پنجاب اور سندھ، جبکہ ہندوستان میں اترپردیش اور تلنگانہ میں بستے ہیں۔ برصغیر کے شیعہ جہاں ایک جیسی مذہبی میراث، جشن اور عزاداری کی رسومات، شعر و ادب، اور ایک جیسے مسائل کا سامنا کرنے کی وجہ سے آپس میں جڑے ہوئے ہیں، وہیں علاقائی زندگی کے تقاضوں کی وجہ سے الگ بھی ہیں۔ اسطرح برصغیر کی شیعیت قوس قزح کی طرح کئی رنگوں کا مجموعہ ہے۔

وادئ سندھ کا مصر، حجاز اور عراق سے سمندری راستے سے تجارتی تعلق شاہراہ ریشم کا حصہ ہونے کی وجہ سے بہت پرانا ہے اور اس کے شواہد آثارِ قدیمہ سے بھی ملے ہیں۔ اسلام کے ظہور کے بعد تجارتی قافلوں کے ذریعے اسلام کا پیغام بھی سندھ پہنچا۔ آئمہ اہلبیت ؑ کے بعض اصحاب بھی سندھ سے تعلق رکھتے تھے۔ البتہ مراکز تشیع سے دوری اور مختلف بادشاہوں کی شیعہ دشمن پالیسی کی وجہ سے اٹھارویں صدی عیسوی تک شیعیت کو خاطر خواہ فراغ نہیں ملا۔

اٹھارویں صدی عیسوی میں اَوَدھ (موجودہ اترپردیش) اور بنگال میں شیعہ نوابوں کی حکومت قائم ہونے سے شیعہ علماء کو مذہبی تبلیغ کی آزادی میسر آئی۔

معروف شیعہ متکلم اور فقیہ، سید دلدار علی نقوی غفران مآب (متوفیٰ 1820ء)، صاحبِ کتاب ”الشهاب الثاقب“، نے لکھنؤ میں حوزہ علمیہ کی بنیاد رکھی اور درس و تدریس کا منظم سلسلہ شروع کیا۔ ان کے معاصر علامہ سید محمد قلی موسوی (متوفیٰ 1844ء)، صاحبِ کتاب ”تشیید المطاعن“، نے معروف کتابخانہ ناصریہ کی بنیاد رکھی۔ ان بزرگوں کے بچوں اور شاگردوں نے بھی کئی کتابیں لکھیں، مناظرے کئے اور مدارس قائم کئے۔ یوں برصغیر میں شیعیت کا فروغ کسی حکومت کی سرپرستی سے زیادہ علماء کی تبلیغی مساعی کا نتیجہ ہے۔

دوسری طرف برصغیر کا خطہ تصوف کیلئے ہمیشہ زرخیز زمین ثابت ہوا ہے۔ اپنشاد اور وید جیسے تصوف کے قدیم ماخذ وادئ سندھ میں ہی لکھے گئے۔ بایزید بسطامی کے استاد ابوعلی سندھی، مسلمان ہونے سے پہلے سندھ کے ایک ہندو جوگی تھے۔ حلاج نے بھی ہندوستان کا سفر کیا ہے۔ اسلام سے پہلے وسطی ایشیاء میں ہندوستانی مزہبی افکار عام ہو چکے تھے اور اسلام کے بعد کے بڑے صوفی خراسان کے علاقے سے ہی اٹھے۔

محمود غزنوی کے بعد جب وسطی ایشیاء کے حملہ آوروں نے ہندوستان پر قبضہ جمایا تو اپنے ساتھ حنفی فقہ اور تصوف لائے جو آسانی سے ہندوستان کے جوگی کلچر سے گھل مل گیا۔ اہل تصوف نے شیعوں کے خلاف بھی کتب لکھیں جن میں شیخ احمد سرہندی (متوفیٰ 1624ء) کی ”ردِ روافض“ اور شاہ عبدالعزیز دہلوی (متوفیٰ 1823ء) کی ”تحفہ اثنا عشریہ“ آج بھی شیعہ دشمنوں کے بغض و کینے کی آگ کو ایندھن فراہم کرتی ہیں۔ لکھنؤ کے علماء نے ان کتب کا مفصل تحقیقی جواب دیا ہے۔

ردِ روافض میں شیخ احمد سرہندی اپنے مریدوں کو دہشتگردی اور انسانیت کے خلاف جرائم پر اکساتے ہوئے لکھتے ہیں:

”علمائے ماوراء النہر نے فرمایا کہ جب شیعہ حضرات شیخین، ذی النورین اور ازدواج مطہرات کو گالی دیتے ہیں اور ان پر لعنت بھیجتے ہیں تو بروئے شرع کافر ہوئے۔ لہٰذا بادشاہِ اسلام اور نیز عام لوگوں پر بحکمِ خداوندی اور اعلائے کلمۃ الحق کی خاطر واجب و لازم ہے کہ ان کو قتل کریں، ان کا قلع قمع کریں، ان کے مکانات کو برباد و ویران کریں اور ان کے مال و اسباب کو چھین لیں۔ یہ سب مسلمانوں کیلئے جائز و روا ہے۔“ (1)

البتہ چونکہ شیخ احمد سرہندی کا اس وقت معاشرے پر اتنا اثر نہ تھا، مغل دور کا ہندوستان شہنشاہ اکبر کی حکمت عملی پر کاربند رہا۔ ان کے خیالات ان کی وفات کے سو سال بعد شاہ ولی اللہ اور انکے خاندان نے زیادہ مقبول بنائے۔ شاہ ولی الله نے شیخ احمد سرہندی کی کتاب ”ردِ روافض“ کا عربی میں ترجمہ بعنوان ”المقدمۃ السنیہ فی الانتصار للفرقۃ السنیہ“ کیا۔ (2) ان خیالات کو عملی جامہ پہنانے کا سلسلہ 1820ء میں شروع ہوا جب سید احمد بریلوی نے اپنے مجاہدین کو امام بارگاہوں پر حملے کے لیے ابھارا۔ پروفیسر باربرا مٹکاف لکھتی ہیں:

”دوسری قسم کے امور جن سے سید احمد بریلوی شدید پرخاش رکھتے تھے، وہ تھے جو تشیع سے پھوٹتے تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کو تعزیے بنانے سے خاص طور پر منع کیا، جو شہدائے کربلا کے مزارات کی شبیہ تھے اور جن کو محرم کے جلوسوں میں اٹھایا جاتا تھا۔ شاہ اسماعیل دہلوی نے لکھا:

’ایک سچے مومن کو طاقت کے استعمال کے ذریعے تعزیہ توڑنے کے عمل کو بت توڑنے کے برابر سمجھنا چاہئیے۔ اگر وہ خود نہ توڑ سکے تو اسے چاہئیے کہ وہ دوسروں کو ایسا کرنے کی تلقین کرے۔ اگر یہ بھی اس کے بس میں نہ ہو تو اسے کم از کم دل میں تعزیے سے نفرت کرنی چاہئیے۔‘

سید احمد بریلوی کے سوانح نگاروں نے، بلا شبہ تعداد کے معاملے میں مبالغہ آرائی کرتے ہوئے، سید احمد بریلوی کے ہاتھوں ہزاروں کی تعداد میں تعزیے توڑنے اور امام بارگاہوں کے جلائے جانے کاذکر کیا ہے۔“ (3)

بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ شاید شیخ احمد سرہندی کے پر تشدد خیالات کی وجہ ان کا وحدت الوجود کے تصور سے دور ہو کر وحدت الشہود کا تصور پیش کرنا تھا۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ شیخ احمد سرہندی کی تکفیری سوچ کو رواج دینے کا سہرا شاہ ولی اللہ اور ان کے بیٹوں کے سر جاتا ہے جو وحدت الوجود کے قائل تھے۔ شاہ ولی اللہ نے ”فیصلہ وحدۃ الوجود و الشہود“ کے عنوان سے رسالہ لکھ کر ان دونوں اصطلاحات کو ہم معنی قرار دیا۔ بعد ازاں ان کے بیٹے شاہ رفیع الدین دہلوی نے ”دمغ الباطل“ کے عنوان سے ایک مستقل کتاب لکھ کر اپنے والد کے موقف کی وضاحت کی۔ برصغیر کی تمام بڑی تکفیری جماعتیں انہی حضرات کی پیروکار ہیں۔

شیخ احمد سرہندی کی شدت پسندی کو ان کے معاصرین نے زیادہ قبول نہیں کیا تھا۔ حتیٰ کہ ان کو کوئی اہم شخصیت بھی نہیں سمجھا جاتا تھا اور ان کے معاصر عبد القادر بدایونی (متوفیٰ 1615ء) نے اپنی کتاب ”منتخب التواریخ“ میں ان کا نام بھی شامل نہیں کیا۔ اورنگزیب عالمگیر نے بھی اپنے ایک خط میں ان کا ذکر ایک گمراہ صوفی کے طور پر کیا ہے۔ ان کی شدت پسندی کو جدید دور میں شاہ ولی اللہ کے پیروکاروں کی وجہ سے زیادہ اہمیت ملی ہے، جنہوں نے ان کو مجدد الف ثانی کے لقب سے مشہور کر رکھا ہے۔

جو لوگ مسلم معاشروں میں شدت پسندی کے خلاف سرگرم ہونا چاہتے ہیں انہیں وحدت الوجود کے دھوکے میں نہیں آنا چاہئے۔ حماقت عام کر کے ظلم کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ شدت پسندی کو وحدت الوجود اور وحدت الشہود کی لفظی نزاع سے جوڑ کر جان چھڑا لینا درست نہیں ہے۔ یہ روش دہشتگردی کے اصلی اسباب جاننے کیلئے درکار محنت سے فرار کے سوا کچھ نہیں ہے۔ برصغیر کے صوفی آستانے ظلم و ناانصافی میں بادشاہوں کے سہولت کار رہے ہیں۔ بادشاہوں نے بھی ہمیشہ ان جہالت کدوں کو مددِ معاش کے نام پر وسیع جاگیروں سے نوازا ہے۔

سال 1947ء کے آغاز میں ہی پنجاب کے صوفی پیروں اور سنی علماء نے ہندوؤں اور سکھوں کے قتل، ان کے گھروں کو آگ لگانے اور انکی خواتین کی عصمت دری کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کا نتیجہ قیامِ پاکستان کے فوری بعد بھارت کے حصے کے پنجاب میں مسلمانوں کے قتلِ عام کی صورت میں نکلا۔ یوں صوفیوں کی ہوس نے وسیع پیمانے پر فسادات بھڑکائے اور محتاط اندازوں کے مطابق دس لاکھ افراد لقمۂ اجل بنے اور ایک کروڑ افراد کو سرحد سے آر پار ہجرت کرنا پڑی۔ اس طرح بندوق کی نوک پر پنجاب میں مذہبی تنوع کا خاتمہ ہوا۔

قیامِ پاکستان کے بعد شیعوں کے خلاف سب سے پہلی کتاب چشتی سلسلے کے صوفی پیر خواجہ قمر الدین سیالوی نے 1957ء میں لکھی۔ اس کا عنوان ”مذہبِ شیعہ“ ہے اور اس کا جواب آیت اللہ شیخ محمد حسین نجفی نے ”تنزیہ الامامیہ“کے عنوان سے دیا ہے۔ آپ نے ردِ تصوف پر بھی ایک کتاب ”اقامۃ البرہان علی بطلان التصوف العرفان“ کے عنوان سے لکھی ہے۔

سیالوی پیر انیسویں صدی میں سامنے آنے والے دیوبندی مکتبِ فکر سے بھی متاثر ہیں، یہ بات ان کو باقی چشتی سلسلوں سے جدا کرتی ہے۔ دیوبندی مکتبِ فکر بھی، ابنِ تیمیہ کی طرح، مخصوص قسم کی صوفیت کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے۔

 

حوالہ جات:

1۔ شیخ احمد سرہندی، ردِ روافض، صفحہ 35، مدنی کتب خانہ، گنپت روڈ، لاہور۔

مخطوطات > المقدمة السنية في الانتصار للفرقة السنية .

3. B. Metcalf, “Islamic revival in British India: Deoband, 1860–1900”, p. 58, Princeton University Press, 1982

اسی زمرے میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button