مضامین

حکمتِ متعالیہ کا تنقیدی جائزہ – آیۃ اللہ شیخ حسن میلانی

0 ملاحظات

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ صَلَّی اللہ عَلٰی مُحَمَّدٍ واٰلہٖ الطَّاہِرِين. قَالَ اَللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى:

«بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ. قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ. اَللّٰہُ الصَّمَدُ. لَمۡ یَلِدۡ ۬ۙ وَ لَمۡ یُوۡلَدۡ. وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ.»

ترجمہ: ”بنامِ خدائے رحمان و رحیم۔ کہہ دیجئے: وہ اللہ یکتا ہے۔ اللہ بے نیاز ہے۔ نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا۔ اور کوئی بھی اس کا ہمسر نہیں ہے۔“ (سورۂ توحید)

پچھلے درس میں ہم یہاں تک پہنچے تھے کہ چار پہلوؤں سے موجودہ نام نہاد عرفان اور سیروسلوک، عقل و وحی سے الگ ہے اور ان میں بنیادی اختلاف سامنے لایا جا سکتا ہے۔

پہلی جہت بنیاد کا اختلاف تھا۔ عرض کیا گیا کہ عقل، دلیل، قرآن اور سنت کی رو سے خدا شناسی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ذاتِ احدیت سبھی اشیاء سے ماوراء ہے۔ ان کی خالق ہے۔ کوئی بھی چیز وجود نہیں رکھتی تھی اور ذاتِ احدیت نے سب چیزوں کو خلق کیا، جبکہ وہ پہلے سے وجود نہیں رکھتی تھیں۔

سورۂ توحید نے معارفِ الٰہیہ کو بطورِ کامل بیان کیا ہے کہ جن کو علیحدہ درس میں تفصیل سے بیان کیا جانا چاہئے۔ سبھی گمراہیوں کی بنیاد یہ ہے کہ ابتداء میں ہی صحیح اعتقادات حاصل نہیں کئے جاتے۔ لہٰذا سیر و سلوک کی تشخیص انہی باطل اعتقادات پر ہوتی ہے۔

لیکن سابقہ درس میں ہم نے نام نہاد عرفا کی روش کو واضح کیا اور ان کے سیر و سلوک کی اعتقادی بنیادیں سامنے لائے، جو ملا صدرا کے فلسفے میں آئی ہیں۔ وہ یہ ہیں کہ خدا اور خلق میں کسی تفاوت، اجنبیت اور جدائی کو یہ حضرات مانتے ہی نہیں۔ بلکہ کہتے ہیں: ہر چیز خد ا کی ذات کا ایک حصہ، مرتبہ، شعاع، پرتو، جلوہ یا ایک جزو ہے۔ بات یہاں تک پہنچی تھی کہ وہ کہتے ہیں:

«لَیسَ فِی الدّار الوجود غَیرُهُ دَیار» (1)

ترجمہ: ”دارِ وجود میں خدا کے سوا کوئی موجود نہیں ہے“۔

ملا صدرا کا کہنا ہے:

«کل ما ندرکہ فہو وجود الحق فی أعیان الممکنات» (2)

ترجمہ: ”ہم جو کچھ پاتے ہیں وہ وجودِ حق ہے جو بطورِ عینی ممکنات میں ہے“۔

یہاں ممکن الوجود کا ذکر بس نام کا ہے۔ یہ چیزیں واقعاً ممکن الوجود یا مخلوق نہیں ہیں۔ خدا ظاہر ہوا ہے۔ آگے چل کے یہی موصوف کہتے ہیں:

«فالعالم متوہم ما لہ وجود حقيقي فہذا حكايۃ ما ذہبت إليہ العرفاء الإلہيون و الأولياء المحققون» (3)

ترجمہ: ”کائنات حقیقت میں موجود نہیں، بس ایک توہم ہے۔ یہ وہ حکایت ہے جس کی طرف عرفائے ربانی اور محقق اولیائے کرام گئے“۔

یعنی یہ عالم ایک، خیال، خواب اور سراب ہے۔ اسکا ہونا سچ نہیں۔ زمین و آسمان، انسان، شیطان، یہ سب حقیقت میں موجود نہیں۔ ہر ایک خدا کے وجود کا ایک حصہ ہے۔ یہ صوفیوں کی تحقیق ہے۔ ہم نے پہلے کہا ہے کہ ملا صدرا کے فلسفے اور تصوف میں کوئی جدائی نہیں ہے۔ ملا صدرا اس فن کا استاد ہے۔ وہ خود اعتراف کر رہا ہے کہ جو کچھ اس نے کہا ہے وہ نام نہاد عرفا کی فکر کی تائید کرتا ہے۔ یہ لوگ ان کی نظر میں اولیائے الٰہی ہیں۔

حقیقی اولیائے الٰہی معصومین ؑ ہیں، وہ ان کے مخالف ہیں۔ ان کے فرامین اس مکتبِ فکر کے مدِ مقابل ہیں۔ ملا صدرا (وجود پر مرکب روشنی کا باطل قیاس کرنے کے بعد) کہتا ہے:

«فانكشف حقيقۃ ما اتفق عليہ أہل الكشف و الشہود» (4)

ترجمہ: ”پس وہ سچ آشکار ہو گیا جس پر اہلِ کشف و شہود کا اتفاق ہے“۔

وہ لوگ جو کشف و شہود سے اشیاء کو سمجھتے ہیں۔ وہ کون ہیں؟

«كالشيخين محي الدين الأعرابي و صدر الدين القونوي و . . .» (5)

ترجمہ: ”دو بابوں محیی الدین ابنِ عربی اور صدر الدین قونوی وغیرہ جیسے لوگ“۔

یہاں کچھ نکات ہیں جو بعد میں عرض کروں گا۔ ابھی صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ یہ حضرات مخلوقات کے وجود کے قائل نہیں ہیں اور سب چیزوں کو خود خدا کہتے ہیں۔

ان دو نکات میں سے ایک یہ ہے کہ یہ کشف و شہود کیا ہے اور کس حد تک اعتبار کرنے اور اہمیت دینے کے لائق ہے؟ انشاء اللہ پھر کبھی اس کی وضاحت کریں گے۔ اس کے دعوے داروں میں سے کوئی بھی آج تک کوئی چھوٹی سی دلیل بھی پیش نہیں کر سکا جس سے ثابت ہو کہ ان کا کشف و شہود، کسی قسم کی واقعیت و حقانیت رکھتا ہے۔ دوسری طرف ہم ایسے دلائل پیش کریں گے کہ ان کا کشف و شہود، عقل و برہان کے ساتھ ساتھ قرآن و روایات اور ضرورتِ ادیان کے خلاف ہے، یہ الگ سے بیان کریں گے۔

ایک دلیل خود یہی عقیدۂ وحدت الوجود ہے۔ اگر ان حضرات کو کشف و شہود سے پتا چلا ہے کہ ہم اور خدا دو نہیں بلکہ ایک ہی ہیں، تو یہ بات عقل و برہان، قرآن اور ضرورتِ ادیان کے خلاف ہے۔ یہ صرف ضرورتِ اسلام نہیں بلکہ ضرورتِ ادیان کے خلاف ہے۔ یعنی وحی پر مبنی ہر مکتب کی اساس اس پر ہے کہ خالق مخلوق سے جدا اور مخلوق خالق سے الگ ہے۔

یہ بھی پڑھئے: خالق اور مخلوق کی اصلیت جدا ہے ۔ آیۃ اللہ سید محمود بحرالعلوم میردامادی

یہی ملا صدرا صاحب اسفارِ اربعہ کی دوسری جلد میں کہتے ہیں:

«فواجب الوجود كل الأشياء لا يخرج عنہ شي‌ء من الأشياء» (6)

ترجمہ: ”واجب الوجود سب اشیاء ہے، اس سے کچھ بھی باہر نہیں ہے“۔

جیسا کہ شہر ملک سے باہر نہیں ہوتا اسی طرح کوئی چیز خدا سے خارج نہیں ہے۔ یہ مثال میں نے دی ہے۔ بعض افراد جو عرفانی فلسفے کو اچھی طرح نہیں جانتے یہ کہتے ہیں کہ یہ جسمانی مثال ہے۔ خدا تو جسم نہیں رکھتا۔ اس کو انشاء اللہ اپنی جگہ واضح کرنا ہے کہ عرفانی فلسفہ جسم اور جسمانیت کی جو تعریف کرتا ہے اس کے مطابق یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کے ہاں کوئی شہر، صوبہ، پتھر، لکڑی، وغیرہ خدا سے باہر نہیں ہے۔ یہ چونکہ عرفانی فلسفے کی تعریف کو نہیں اپناتے اسلئے اعتراض کرتے ہیں۔ مناسب موقع پر وضاحت کر دی جائے گی۔

عرفان اور سیر و سلوک الی اللہ کے دعویداروں کے بنیادی عقیدوں کے بیان کیلئے ان کے اقوال پیش کئے گئے ہیں۔ ملا صدرا اصولِ کافی کی شرح میں کہتا ہے:

«ہو وجود الاشياء كلّہا» (7)

ترجمہ: ”خدا اشیاء کا کلی وجود ہے“۔

آغا حسن زادہ آملی اپنی کتاب ”وحدت از دیدگاہِ عارف و حکیم“ میں یہ عقیدہ لکھتے ہیں، جو اصل میں ابنِ عربی کا قول ہے:

«ان الحق المنزہ ہو الخلق المشبہ» (8)

ترجمہ: ”خدائے منزہ وہی خلقِ مشبہ ہے“۔

اس کتاب کو انہوں نے اسلئے لکھا کہ توحید کے بارے میں فلاسفہ و عرفا کے نظریات کو بیان کریں۔ اس میں یہاں تک آ گئے کہ کہنے لگے کہ وہ خدا جو ہر چیز سے پاک و منزہ ہے، جو نہ جسم ہے، نہ زمان و مکان رکھتا ہے، نہ اجزاء رکھتا ہے، نہ مرکب ہے، وہ خدائے متعال جو مخلوقات کی سب صفات سے پاک ہے، وہ خلقِ مشبہ ہے۔ یعنی ایک دوسرے سے شباہت رکھنے والی مخلوقات ہے۔ جو ترکیب و اجزاء رکھتی ہیں، شکل اور مثل رکھتی ہیں۔ ایک اور عبارت یہ ہے کہ:

«سبحان من أظہر الأشياء و ہو عينہا» (9)

ترجمہ: ”پاک ہے وہ جس نے اشیاء کو ظاہر کیا، جبکہ وہ انکا عین ہے“۔

یہ ان جملوں میں سے ہے جو ابنِ عربی نے فتوحاتِ مکیہ میں لکھے۔ کہتا ہے کہ منزہ ہے وہ خدا جس نے چیزوں کو ظاہر کیا جب کہ وہ خود عینِ اشیاء ہے۔ خدا انہی اشیاء کا عین ہے، ایسا نہیں کہ اس نے اپنی ذات سے الگ کوئی چیز خلق کی ہو۔ فصوص الحکم میں ابنِ عربی کہتا ہے کہ:

«فإِنہ على صورتہ خلقہ، بل ہو عين ہويتہ و حقيقتہ» (10)

ترجمہ: ”اس نے اسے اپنی صورت پر بنایا، بلکہ وہ عین اس کی ہویت اور حقیقت ہے“۔

خدا عینِ موجودات ہے۔ فصوص الحکم کی شرح کرتے ہوئے قیصری لکھتا ہے: «إنہا ہی الظاہر بصور الحمار والحیوان»، یعنی ذاتِ خدا حمار، مجھ میں جرات نہیں کہ اس لفظ کا ترجمہ کروں، اور حیوانات کی شکل میں ظاہر ہوئی۔ وجودِ خدا وہی وجود ہے جو مختلف اشیاء کی شکل میں ظاہر ہوا۔ آغا حسن زادہ آملی کی ایک کتاب ہے، انہُ الحق، اس میں وہ خدا شناسی اور توحید پر بحث کرتے ہیں۔ اس میں آیا ہے کہ:

«غير متناہى كہ صمد حق است بہ حيث كہ لا يخلو منہ شئ و لا يشذ منہ مثقال عشر عشر اعشار ذرہ» (11)

ترجمہ: ”لامتناہی کہ صمدِ حق ہے، ایسے کہ اس سے کوئی چیز خالی نہیں اور ذرے کا ہزارواں حصہ بھی اس سے جدا نہیں“۔

یعنی خدا، جو ایسا بھرا ہوا وجود ہے کہ اس میں کوئی خالی جگہ نہیں۔ انشاء اللہ سورۂ توحید کی تفسیر میں آئے گا کہ صمد کا معنی یہ نہیں، صمد کا مطلب ہے کہ خدائے متعال ذاتِ امتدادی نہیں رکھتا۔ یہ کہنا باطل ہے کہ وہ پُر ہے اور سوراخ نہیں رکھتا یا اندر سے خالی ہے اور سوراخ رکھتا ہے۔

صمد یعنی ایسی ذات جس کا داخل و خارج نہیں ہے۔ جو امتدادِ وجود نہیں رکھتی۔ جز و کل نہیں رکھتی۔

لیکن ان حضرات نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ صمد کا مطلب اندر سے بھرا ہوا وجود ہے، جو ایسا سعۂ وجودی یا گنجائش رکھتا ہے کہ ہر جگہ کو گھیرے ہوئے ہے۔ پس کوئی خالی جگہ نہیں ملتی جہاں کسی اور موجود کو فرض کیا جا سکے، جو مخلوق ہو۔ یہ صاحب کہتے ہیں کہ خدا ایسا ہے۔ پس ایک ذرے کے ہزارویں حصے جتنی چیز بھی اس سے باہر نہیں ہے۔ یعنی پانی کا ایک مالیکیول یا ہوا میں اڑنے والا کوئی ذرہ بھی اس کے وجود سے خارج نہیں ہے۔ کیونکہ وجودِ خدا نے ساری جگہ بھر دی ہے اور غیرِ خدا کیلئے کوئی جگہ ہی باقی نہیں چھوڑی۔ یا ایک اور جگہ کہا گیا ہے:

«ہر لحظہ بہ شکلی بتِ عیار بر آمد» (12)

ترجمہ: ”ہر لحظہ وہ بتِ عیار ایک نئی ہی شکل میں ظاہر ہوتا ہے“۔

یعنی ان کا خدا ہر لحظہ کسی نہ کسی شکل میں سامنے آتا ہے۔ زمین، آسمان، بادل، بارش، موج کی صورت ظاہر ہوتا ہے۔ ملا صدرا اپنی کتاب مشاعر میں لکھتا ہے کہ:

«رجعت العليۃ إلى تطور المبدأ الأول بأطوارہ» (13)

یعنی ان کا خدا کو علت کہنا اس معنی میں نہیں کہ وہ خالقِ اشیاء ہے، بلکہ وہ اشیاء کے ہونے کی علت ایسے ہے جیسے سمندر کا ہونا بادلوں کے ہونے کی علت ہے۔ یعنی خود سمندر ہی بادل، بارش، دریاؤں اور سمندری امواج کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ جبکہ علت و معلول کا یہ تصور عقل و برہان اور ادیان کے خلاف ہے۔

یہ بھی پڑھئے: وحدتِ وجود پر ایک وہابی سے مناظرے کی روداد – آیۃ اللہ علامہ سید قاسم علی احمدی

آخر میں دو تین چیزوں کے بارے یاد دہانی کرانی ہے۔ ایک یہ کہ ممکن ہے کوئی کہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی فلسفے کا مخالف ہو، کیونکہ فلسفے کا معنی تعقل ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کوئی عقل کا مخالف ہو؟ جواب یہ ہے کہ کوئی عقل کا مخالف نہیں ہے۔

ہم ہر گز یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ عقل کا کوئی فیصلہ باطل ہے۔ عقل اچھی ہے، عقلانیت اچھی چیز ہے۔ لیکن آپ اپنی عقل کے ساتھ میدان میں آئیں۔ خود دیکھیں کہ کیا یہ بات کہ خالق و مخلوق ایک چیز ہیں، دو نہیں، آیا واقعاً عقلی ہے؟ جسے یہ لوگ عقلی کہیں اسے ماننا ہم پر لازم تھوڑی ہے؟

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جو ان فلسفیوں کی طرف سے مشہور کیا گیا ہے کہ فلسفہ عقل کے مترادف ہے، ہم اسے قبول نہیں کرتے۔ آپ اپنی عقل کو میدان میں لے آئیں اور جو باتیں معقول ہوں انہیں مان لیں اور جو نہ ہوں انہیں توہمات قرار دیں، کہ جو عقلیات کی جگہ بیان ہوئی ہیں۔ یہاں عقل کی مخالفت کی بات نہیں ہو رہی۔

دوسری بات یہ کہ اکثر کہا جاتا ہے کہ وحدتِ وجود مختلف اور متفاوت معنی رکھتا ہے۔ ہم نے آپ کی خدمت میں جو جملے پیش کئے ہیں اور آئندہ بھی کریں گے، آپ ان پر غور کریں اور خود فیصلہ کریں کہ کیا وحدتِ وجود کے دو الگ معنی بھی ہو سکتے ہیں؟ کوئی 30 کہتا ہے، کوئی 35 تو کوئی 70 معنی گنتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ وحدتِ وجود کے ایک سے زیادہ معنی نہیں ہیں۔ ان سب جملوں میں ایک ہی بات بیان ہوئی ہے اور وہ بھی خلقت و آفرینش کے نظریئے کی مخالفت پر مبنی ہے۔

ہاں اس کے نام بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی تطور کہتے ہیں، کبھی تجلی، کبھی ظہور، کبھی علت و معلول، کبھی تشکیک، کبھی حصہ اور کبھی مرتبہ کہتے ہیں۔ نام بدلتے رہتے ہیں لیکن وحدتِ وجود کے معنی ایک سے زیادہ نہیں ہیں۔

آخری بات یہ کہ یہ کہتے ہیں کہ وحدتِ وجود کا معنی اتنا عالی اور بلند ہے کہ کسی کی سمجھ میں نہیں آتا۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ مغالطہ بھی ان کا اپنا پھیلایا ہوا ہے۔ ہم ان کی عبارتیں پیش کر رہے ہیں، آپ خود فیصلہ کریں۔ آپ دیکھیں گے کہ وحدتِ وجود کا معنی بہت سادہ اور روان ہے۔ اور ایسا نہیں کہ اس کی عظمت اور سختی اور دشواری اس کا سبب بنی ہو کہ اس کا انکار کیا گیا۔

وَ صَلَّی اللہ عَلٰی مُحَمَّدٍ واٰلہٖ الطَّاہِرِين.

یہ بھی پڑھئے: کثرت در وحدت یا تشکیکِ وجود کا عقیدہ درست نہیں – ڈاکٹر سید محمود ہاشمی نسب

حوالہ جات:

ملا صدرا، اسفار اربعہ، جلد 2، صفحہ 292؛ دیوان منصور حلاج، 146؛ اشعہ اللمعات، 185؛ بستان السیاحہ، 373۔
ملا صدرا، اسفار اربعہ، جلد 2، صفحہ 293، بیروت۔
ملا صدرا، اسفار اربعہ، جلد 2، صفحہ 294، بیروت۔
ملا صدرا، اسفار اربعہ، جلد 2، صفحہ 341، بیروت۔
ملا صدرا، اسفار اربعہ، جلد 2، صفحہ 333، بیروت۔
ملا صدرا، اسفار اربعہ، جلد 2، صفحہ 368، بیروت۔
ملا صدرا، شرح اصولِ کافی، جلد 4، صفحہ 28، تہران۔
حسن زادہ آملی، وحدت از دیدگاہِ عارف و حکیم، صفحہ 76، انتشارات فجر، ایران۔
ابنِ عربی، فتوحاتِ مکیہ، جلد 2، صفحہ 459، مؤسسۃ آل البیت لاحیاء التراث۔
10۔ ابنِ عربی، فصوص الحکم، فصِ شعیبیہ، صفحہ 125، قاہرہ۔
11۔ حسن زادہ آملی، انہ الحق، صفحہ 46، انتشارات قیام۔
12۔ مولوی رومی کا مصرع۔
13۔ ملا صدرا، کتاب المشاعر، صفحہ 83۔

یہ بھی پڑھئے:
ہم ابنِ عربی کے عرفان کی تائید نہیں کرتے – آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی

اسی زمرے میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button