مقالات

علمِ حضوری کا مفروضہ اور نوصدرائی فلسفی – ڈاکٹر سید علی طاہری خرم آبادی

125 ملاحظات

جدید دور میں ملا صدرا کے فلسفے کے بعض پیروکار یہ سمجھتے ہیں کہ علمِ حضوری کے بارے میں متأخر صدرائی فلسفیوں کے خیالات علمیات (epistemology) کے بعض سوالات کا جواب دے سکتے ہیں۔ اس سوچ کی بنیاد شاید علامہ محمد حسین طباطبائی کا یہ کہنا ہے کہ علومِ حصولی کی بازگشت علومِ حضوری کی طرف ہے اور آیۃ الله مصباح یزدی کا بدیہیاتِ اولیہ کو علومِ حضوری کی طرف لوٹانا ہے۔ پہلے مفروضے کے مطابق ہر حصولی علم کی جڑ ایک حضوری علم میں ہے۔ حسی معلومات کے بارے اصلی مسئلہ حسی تجربے کے حسی معلومات سے رابطے کی توجیہ کرنا ہے۔ لیکن اس مفروضے میں علمِ حضوری کے علمِ حصولی میں بدلنے کے عمل کی کوئی وضاحت نہیں دی گئی جس کی وجہ سے یہ مسئلے کے حل میں کوئی مدد نہیں کرتا۔ اسی طرح آیۃ الله مصباح یزدی کا مفروضہ یہ ہے کہ بدیہیاتِ اولیہ کا حضوری علوم پر مبتنی ہونا ان کے درست ہونے کی ضمانت ہے۔ مختلف دلائل موجود ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضوری علوم بدیہیاتِ اولیہ کے درست ہونے کے ضامن نہیں ہو سکتے۔

مقدمہ

موجودہ دور میں صدرائی فلسفے کے بعض حامیوں میں رائج تصور کے مطابق بعض معاصر صدرائی فلسفی نظریۂ دانش یا علمیات (epistemology) سے تعلق رکھنے والے بعض اہم مسائل کے حل میں علمِ حضوری (knowledge by presence) کے اہم کردار کو سامنے لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یوں آج کل اس علم کی وضاحت اور علم شناسی میں اس کے کردار کو ثابت کرنے کیلئے مستقل تحریریں لکھی جا رہی ہیں۔ اس رائج سوچ کے منابع تلاش کئے جائیں تو یہ دو ہوں گے: علامہ طباطبائی کا یہ معروف خیال کہ ”ہر حصولی علم، کسی نہ کسی حضوری علم کے سرچشمے سے نکلتا ہے“، اور دوسرا آیۃ الله مصباح یزدی کا یہ خیال کہ ” بدیہیاتِ اولیہ کا ارجاع علومِ حضوری کی طرف ہے“۔

اس مقالے مِیں مَیں یہ ثابت کروں گا کہ اس تصور کے حق میں کوئی اچھی دلیل وجود نہیں رکھتی۔ پہلے حصے میں علامہ طباطبائی کی رائے کی وضاحت کروں گا اور ہم دیکھیں گے کہ یہ مفروضہ علمیات کے مسائل کے حل میں کوئی مدد نہیں کرتا۔ مقالے کے دوسرے حصے میں بدیہیاتِ اولیہ کے علومِ حضوری کی طرف ارجاع پر اپنی تحقیق پیش کروں گا۔ اس تحقیق کا نتیجہ یہ ہے کہ متعدد دلائل کی بنیاد پر اس مفروضے کو قبول کرنا مشکل ہے، لہٰذا آج کل پھیلایا جانے والا یہ تصور کوئی مضبوط دلائل نہیں رکھتا۔

حصولی علوم کی حضوری علوم سے وابستگی

صدرائی فلسفے میں رائج تفریق کی بنیاد پر انسان کے علوم یا حصولی ہیں یا حضوری۔ حصولی علم میں فاعلِ شناسا (subject یا موضوع) اور متعلقِ دانش (epistemic object) کے درمیان ایک واسطہ وجود رکھتا ہے جو ذہن میں ہے اور چونکہ کسی دوسری چیز کو ظاہر کر رہا ہوتا ہے اس لیے اسے ”صورتِ ذہنی“ کہتے ہیں۔ خارج کے بارے میں ہمارا علم عموماً اسی قسم کا ہے۔ جب درخت کو دیکھتا ہوں تو اصلی درخت کے میری آنکھ اور اعصاب (nerves) سے مادی رابطے کے نتیجے میں اس کی ایک صورت میرے ذہن میں نقش ہو جاتی ہے۔ اب اس خارجی درخت کے بارے میں آگاہی درخت کی اس صورت کی وساطت سے رکھتا ہوں۔

لیکن بہت سے داخلی امور کے بارے آشنائی کے معاملے میں فاعلِ شناسا اور متعلقِ دانش کے بیچ کوئی واسطہ نہیں ہے۔ مثلاً اگر میں خوش ہوں تو خوشی کے بارے میرا علم بلا واسطہ ہے، کیوں کہ خوشی میرے وجود سے باہر کوئی چیز نہیں ہے اور اس کی واقعیت وہی ہے جو میرے اندر ہے۔ اس بنا پر خود متعلقِ دانش میرے اندر حاضر ہے اور میں اس سے بے واسطہ آگاہ ہوں۔ یہ آگاہی علمِ حضوری قرار دی گئی ہے۔ (مطہری، ١٣٧٥ الف، صفحات ٢٧٢ تا ٢٧٥)

علومِ حصولی کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: تصویری اور تصدیقی۔ تصویری علوم وہ ہیں جو ذہنی قضاوت پر مشتمل نہیں ہیں۔ جب اپنے سمارٹ فون کی شکل اپنے ذہن میں لاتا ہوں تو واحد چیز جو میرے ذہن میں ہے وہ اس مادی چیز کی تصویر ہے۔ میں اپنے فون کے سادہ سے تصور کے بارے میں کوئی ذہنی فیصلے نہیں کرتا۔ یہاں میرا علم تصویری ہے۔ لیکن جب کوئی اس کی لمبائی اور چوڑائی کے بارے میں پوچھے تو ممکن ہے میں اس کی تصویر کو ذہن میں لا کر اپنی انگلیوں کے فاصلے سے یہ باتیں بتا سکوں۔ اس بار فون کو تصور کرنے میں میرا ذہن اس کی تصویر حاضر کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے بارے میں کچھ فیصلے بھی کرتا ہے اور اس کے بارے کچھ اندازے لگاتا ہے۔ لہٰذا اب میں تصدیقی علم رکھتا ہوں کہ میرے فون کی لمبائی اتنی ہے اور چوڑائی اتنی ہے۔ صدرائی فلسفیوں کے ہاں ”قضیہ“ کو ہی علمِ تصدیقی کہتے ہیں۔ یہ لوگ قضیئے کی سرشت کے بارے میں مختلف خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں لیکن بطورِ کلی کہا جا سکتا ہے کہ تصور اور تصدیق میں اصلی فرق تصدیق کا ذہن کی قضاوت یا ذہنی حکم کے ساتھ ہونا ہے۔ (مطہری، ١٣٧٥ الف، ص ٢٨٧ تا ٢٩٥)

علامہ طباطبائی اپنی کتاب ”اصولِ فلسفہ“ میں سبھی علومِ حصولی کو علومِ حضوری سے حاصل شدہ سمجھتے ہیں۔ (علامہ طباطبائی، ١٣٨٧، ص ٨٠) در اصل ذہن عدم سے ذہنی تصویروں کو خلق نہیں کر سکتا اور اس کا کام فقط یہ ہے کہ واقعیات سے حاصل ہونے والے مواد سے تصویر بنا کر اسے اپنے اندر رکھے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ذہن اپنے اندر بالکل نئی اور بدیع شکلیں بنا لیتا اور ان شکلوں کے بیچ فرق کی وضاحت ممکن نہ ہوتی۔ ہمارے ذہن میں پھول اور کرسی کے تصورات میں ہم تبھی فرق کر سکتے ہیں جب ذہن سے باہر، واقعیت کی دنیا میں موجود پھول اور کرسی کے بیچ فرق کو جانتے ہوں۔ اس بنا پر ہر واقعیت کے بارے میں علمِ حصولی، اس واقعیت کے بارے میں پہلے سے بلا واسطہ حاصل کی گئی آگاہی سے وابستہ ہے۔ استاد مرتضیٰ مطہری ذہن کے صورت کو عدم سے خلق کرنے پر قادر نہ ہونے پر اس دلیل کے علاوہ ذہن کی صلاحیتوں کے بارے میں اندرونی جائزے کا بھی سہارا لیتے ہیں۔ (مطہری، ١٣٧٥ ب، ص ٢٦٨ تا ٢٧٤)

بعض علومِ حصولی انسان کی اندرونی حالت سے مربوط ہیں۔ مثال کے طور پر اس تصدیق (قضیہ)، یا علمِ حصولی یا اعتقاد کہ ”میں اب خوش ہوں“، کی جڑ کو آسانی سے ”خوشی کی حالت“ کے علمِ حضوری میں ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ (دماغ کی) اندرونی حالتوں کی واقعیت کسی واسطے کے بغیر ہماری علمی دسترس میں ہے۔ لیکن اکثر علومِ حصولی کا تعلق باہر کی دنیا سے ہوتا ہے۔ یہ علوم حسی معلومات کے ذریعے ہمارے ہاتھ آتے ہیں کیوں کہ حسی صلاحیتیں اور آلات ہمارے اور طبیعی دنیا کے بیچ رابطے کا اکلوتا ذریعہ ہیں۔

دوسری طرف علمِ حضوری کی تعریف کے مطابق یہ عالم اور معلوم کے بیچ کسی واسطے کے بغیر ہونے والا رابطہ ہے۔ چونکہ حسی علوم حسی آلات کی مدد سے حاصل ہوتے ہیں لہٰذا عالم (انسان) اور طبیعی چیزوں کے درمیان رابطہ ہمیشہ حسی صلاحیت پر حس کی تاثیر کے واسطے سے مربوط رہے گا۔ اس بنا پر کیسے کہا جا سکتا ہے کہ انسان کے حسی علومِ حصولی محسوسات کے بارے میں علمِ حضوری سے نکلے ہیں؟ بعض لوگوں نے تو شیخِ اشراق کی پیروی میں یہاں تک کہہ ڈالا ہے کہ محسوسات کا علم، بالخصوص نظر آنے والے مظاہر کا علم، بے واسطہ اور علمِ حضوری ہے۔ (سر بخشی و فنائی اشکوری، ١٣٩١، ص ٥٨ تا ٦٤)

علامہ طباطبائی اس سوال کا یوں جواب دیتے ہیں کہ یہ بات ٹھیک ہے کہ ہم طبیعی واقعیتوں کے بارے میں بلا واسطہ شناخت نہیں رکھتے لیکن ان سے حسی ارتباط سے ایک طبیعی اثر ہمارے کسی عضو، مثلاً آنکھ، میں پیدا ہوتا ہے اور ہم اس اثر کی بے واسطہ شناخت رکھتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، اس اثر کا علمِ حضوری رکھتے ہیں۔ پھر حسی ادراک کا آلہ اس اثر سے ایک تصویر بنا کر ذہن کے حوالے کرتا ہے۔ اس طبیعی چیز کے بارے میں ہمارا علم اس ذہنی صورت کے واسطے سے حاصل ہوتا ہے اس لئے حصولی علم ہے۔ یعنی حسی علومِ حصولی بھی اس علمِ حضوری سے نکلتے ہیں جو چیزوں کے طبیعی آثار کے بارے میں ہمارےآلۂ ادراک میں موجود ہے۔

البتہ اپنی دوسری کتاب، نہایۃ الحکمہ، میں علامہ طباطبائی اس نکتۂ نظر سے مختلف آراء پیش کرتے ہیں۔ (علامہ طباطبائی، ١٣٨٦، ص ٢٥٨) اس کتاب میں حسی صلاحیتوں میں مادی آثار کے بارے موجود علمِ حضوری کا ذکر کرنے کے بجائے خود علمِ حضوری کے ایک غیر طبیعی موجود ہونے کی بات کرتے ہیں جو اس طبیعی چیز کو وجود بخشنے کی علت ہے۔ اس اختلاف پر شارحین نے بحث و گفتگو کی ہے۔

آیۃ اللہ مصباح یزدی نے احتمال دیا ہے کہ انہوں نے نہایۃ الحکمہ میں مختلف دعوے کئے ہیں جو سابقہ رائے سے بھی سازگار ہیں۔ (مصباح یزدی، ١٣٩٣، ص ٣٨٥ تا ٣٨٧) جبکہ بعض یہ سمجھتے ہیں کہ علامہ طباطبائی نہایۃ الحکمہ میں اپنی دوسری اور آخری رائے کو قبول کرتے ہیں جو سابقہ رائے کے خلاف ہے۔ (کرد فیروز جائی، ١٣٩٢، ص ٨٧ تا ٩٦) اور بعض دونوں آراء کو ایک ہی بات سمجھتے ہیں اور ان میں اختلاف کے قائل نہیں۔ (شریف زادہ، ١٣٨٢، ص ٨٧ تا ٩٦)

اب میں نہایۃ الحکمہ میں علامہ طباطبائی کے پیش کردہ نظریات کی وضاحت میں نہیں پڑوں گا اور اس کی مختلف تشریحات کے ٹھیک یا غلط ہونے پر بحث نہیں کروں گا کیوں کہ جو بھی تشریح درست ہو، نظریۂ دانش پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ علومِ حصولی کا علومِ حضوری کی طرف پلٹنا جس معنی میں بھی ہو، حسی معلومات کے صحیح ہونے کا ضامن نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ ایک تو حسی خطاء (illusion) اور حسی توہم (hallucination) کا وقوع قابلِ انکار نہیں۔ بہت بار ایسے ہوتا ہے کہ ہم حسی خطاء کا شکار ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر دائرے کی شکل کی چیز کو کسی خاص زاویے سے دیکھ رہے ہوں تو وہ بیضوی معلوم ہوتی ہے۔ دوسری طرف حسی توہم کی مثالیں بھی ہیں کہ جن میں انسان آلۂ ادراک میں خرابی کی وجہ سے اپنے سامنے کوئی چیز، مثلاً ہاتھی، دیکھتا ہے جو اصلاً وجود نہیں رکھتا۔ چنانچہ علامہ طباطبائی اور استاد مرتضیٰ مطہری نے امکانِ خطاء کی توضیح کرنا چاہی ہے (علامہ طباطبائی، ١٣٧٨، ص ٧٣ تا ٧٧؛ مطہری، ١٣٧٥ ب، ص ٢٧٢) اور کوشش کی ہے کہ ثابت کریں کہ علمِ حصولی کا مطلوبہ واقعیت کو پا لینے سے مشروط ہونا، خطاء کے وقوع سے سازگار ہے۔ (Chisholm, 1964)

اس کے علاوہ علمِ حصولی اور علمِ حضوری کے رابطے میں ایسے سوالات پائے جاتے ہیں کہ جن کا جواب نہ دینا موردِ نظر علمِ حصولی کے ٹھیک ہونے پر اعتراض اٹھا دیتا ہے۔ ان اعتراضات کو سمجھنے کیلئے معاصر مغربی علمیات میں فاؤنڈیشنل ازم (foundationalism) کے تصورات پر نظر ڈالنا مفید ہو گا۔ (Chisholm, 1964) فاؤنڈیشنل ازم یا بنیاد گرائی کے نظریے کے مطابق ابتدائی حسی اعتقادات کا توجیہ کے منبع سے مستقیم رابطہ ہے۔ (Ayer, 1971, pp. 84 – 85; BonJour, 1978, p. 116)۔ ابتدائی حسی اعتقادات سے مراد وہ اعتقادات ہیں جن کا مُوَجَّہ ہونا دوسری معلومات کا محتاج نہیں ہوتا۔ مفصل بحث میں پڑے بغیر ذہن کو قریب کرنے کیلئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اعتقادات کےمُوَجَّہ ہونے سے مراد ان کے حق میں کسی دلیل یا گواہی کا پایا جانا ہے۔ غیر مُوَجَّہ اعتقادات سے مراد ایسے اعتقادات ہیں جن کی دلیل یا گواہی کوئی اور اعتقاد ہو، جیسے میرا یہ استنتاجی اعتقاد کہ کل سورج طلوع کرے گا۔ لیکن مُوَجَّہ اعتقادات کسی اور اعتقاد کے محتاج نہیں، جیسے یہ اعتقاد کہ گلاب کی سرخی ابھی مجھے دکھائی دے رہی ہے۔ ان کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کا مُوَجَّہ ہونا، توجیہ کے منبع کے ساتھ مستقیم رابطہ ہے۔

حسی اعتقادات کی توجیہ کا منبع حسی تجربہ ہے۔ حسی تجربہ ایک علمی حالت ہے لیکن یہ غیر اعتقادی (nondoxastic)ہے۔ غیر اعتقادی ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس میں زبان یا قضیہ پر مبنی کوئی مواد نہیں پایا جاتا۔ لیکن پھر بھی یہ ایک علمی حالت ہے کیوں کہ خارجی دنیا سے جڑی ہوئی ہے اور اس کو نمایاں کرتی ہے۔ یوں تجربہ خود بخود ابتدائی حسی معلومات کو معتبر بناتا ہے اور مثلاً میرے لئے ابھی گلاب کی سرخی کے نمایاں ہونے کو میرا اس وقت دیکھنے کا عمل موجہ کر رہا ہے۔

تجربۂ حسی کی یہ خصوصیت (قضیہ کی صفت کے بغیر علمی ہونا) وہی چیز ہے جسے علمِ حضوری کے کھاتے میں ڈالا جا رہا ہے۔ چنانچہ استاد مرتضیٰ مطہری لکھتے ہیں:

”شک، یقین، تصور، تصدیق، خطا، صواب، حافظہ، توجہ، تفکر، تعقل، استدلال، تعبیرِ لفظی، تفہیم، تفہم، فلسفہ، سائنس، سبھی علومِ حصولی سے مربوط ہیں اور دوسرے لفظوں میں ذہن کی مخصوص دنیا سے تعلق رکھتے ہیں جو عالمِ صورِ اشیاء ہے۔ علومِ حضوری کے معاملے میں یہ مفاہیم کوئی معنی نہیں رکھتے۔“ (مطہری، ١٣٧٥ الف، ص ٢٧٥)

ایک نکتہ یہ ہے کہ علمِ حصولی کا علمِ حضوری کے بعد پایا جانا، چاہے حسی صلاحیت میں موجود مادی اثر کی شکل میں ہو یا غیر مادی چیز کے بارے ہو، معاصر مغربی مفکرین میں فاؤنڈیشنل ازم کے قائل لوگوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ یہ سمجھنا کہ نظریۂ دانش میں یہ تصور معاصر صدرائی فلسفیوں کی دریافت ہے اور انہی میں منحصر ہے، درست نہیں ہے۔ اس سے اہم بات ان اعتراضات پر توجہ دینا ہے کہ جو معاصر فاؤنڈیشنل ازم میں ابتدائی اعتقادات کی تجربۂ حسی سے توجیہ میں سامنے آتے ہیں۔ (Davidson, 1989, pp. 126 – 127; BonJour, 2012, pp. 183 – 186)

تجربۂ حسی، یا وہی علمِ حضوری، اپنے اندر کوئی مفہوم اور قضیہ نہیں رکھتا۔ اگر آپ اس بارے شک رکھتے ہیں تو اپنے کسی خاص سرخ گلاب کو دیکھنے کے تجربے کو بیان کرنے کی کوشش کریں۔ آپ جان لیں گے کہ اس تجربے کو کسی دوسرے فرد کیلئے مکمل طور پر بیان نہیں کیا جا سکتا۔

ہماری زبانی باتیں کلی مفاہیم پر مشتمل ہوتی ہیں اور ہم جتنی بھی کوشش کریں، تجربے سے حاصل ہونے والے مواد کی توصیف پر قادر نہیں ہیں اور اگر یہ گمان کریں کہ زبان کی مدد سے مکمل توصیف ممکن ہے تو بھی تجربے کی زبانی توصیف اور غیر زبانی مواد کی کیفیت میں فرق رہے گا۔ اسی وجہ سے اصل سوال یہ ہے کہ غیر زبانی تجربہ کیسے زبانی مواد کو موجہ یا معتبر بناتا ہے؟ دونوں میں توجیہی تعلق قابلِ فہم ہے کیوں کہ قضیئے زبانی ساخت رکھتے ہیں اور جملات کے مابین روابط کی منطق کی وضاحت کرتے ہیں۔

اس بنا پر ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ قضیئوں کے بیچ بعض روابط، ان قضیئوں سے مربوط اعتقادات کے درمیان توجیہی رابطے کو ممکن بناتے ہیں اور مثلاً اس قضیئے کہ ”یہ سیب سرخ ہے“ اور اس قضیئے کہ ”یہ سیب سرخ یا نیلا ہے“ میں استنتاجی رابطہ برقرار ہے۔ اس طرح ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ پہلے کا یقین دوسرے پر یقین رکھنے کو موجہ بناتا ہے۔ لیکن ہم غیر مفہومی تجربے اور مفہومی اعتقاد کے بیچ میں رابطے کو نہیں سمجھ سکتے اور یہی وہ مسئلہ ہے جس نے بعض فلسفیوں کو توجیہ کے بارے فاؤنڈیشنل ازم سے انسجام (coherence) کے تصور کی طرف دھکیلا ہے۔

معلوم ہوتا ہے کہ ایسا ہی مسئلہ علامہ طباطبائی کے تصور میں بھی پایا جاتا ہے۔ اس تصور کو بھی اس سوال کا سامنا ہے کہ غیر مفہومی علمِ حضوری کس طرح مفہومی علمِ حصولی میں بدلتا ہے؟ جب تک اس سوال کا جواب نہ دیا جائے، علمِ حصولی کی درستی کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ کیوں کہ ممکن ہے علمِ حضوری کے علمِ حصولی میں بدلنے کا عمل ایسی مشکلات کا شکار ہو کہ اس سے حاصل ہونے والے اعتقاد کی درستی مشکوک ہو جائے۔ اس مسئلے کو علومِ حصولی کا ”مسئلہٴ صحت“ کا نام دینا چاہوں گا۔ لیکن علامہ طباطبائی کے نظریئے میں اس سوال کا کوئی قانع کنندہ جواب موجود نہیں ہے اور لہٰذا مسئلہٴ صحت کا کوئی حل پیش نہیں کیا گیا۔ استاد مرتضیٰ مطہری علمِ حضوری کے علمِ حصولی میں بدلنے کے عمل کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:

”۔۔۔ ادراک کی صلاحیت، یا قوتِ خیال، ایسی صلاحیت ہے جس کا کام اشیاء اور واقعیات کی عکاسی کرنا اور تصویریں بنانا ہے، چاہے بیرونی واقعیات ہوں یا داخلی ہوں۔ وہ سب ذہنی تصورات جو حافظے میں اکٹھے اور متمرکز ہیں اور ان پر مختلف اور متعدد ذہنی اعمال واقع ہوتے ہیں، اسی صلاحیت سے ہاتھ آئے ہیں۔ یہ صلاحیت خود بخود تصویر کشی پر قادر نہیں اور فقط یہی کر سکتی ہے کہ اگر کسی واقعیت سے اتصالِ وجودی پیدا کرے تو اس سے ایک شکل بنا کر حافظے کے سپرد کر دے۔“ (مطہری، ١٣٧٥ الف، ص ٢٧١)

جیسا کہ اس عبارت اور اس جیسی دیگر عبارتوں سے واضح ہے، اس تصور کے حامیوں کے پاس کہنے کو صرف یہی ہے کہ ذہن علمِ حضوری، یعنی حسی معلومات، سے عکس برداری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن علمِ حضوری سے شکلیں کیسے بنتی ہیں اور علمِ حضوری کیسے علمِ حصولی میں تبدیل ہوتا ہے، اس بارے یہ لوگ کوئی وضاحت نہیں دیتے۔ جبکہ یہ شکل گیری وضاحت طلب ہے۔ صرف ایسا کرنے والی ایک صلاحیت کا تعارف کرنا دینا اس عمل کے ممکن ہونے اور اس کے طریقۂ کار کی وضاحت نہیں ہے۔

ایک معاصر مغربی فاؤنڈیشنلسٹ، لارنس بونجور، نے حسی معلومات کی غیر مفہومی تجربے سے توجیہ کی وضاحت کیلئے ایک پیچیدہ طریقہ اپنایا ہے۔ (BonJour, 2010, pp. 196 – 202) اس کی یہ کوشش چاہے کامیاب ہو یا ناکام ہو، اس نے جس سوال پر کام کیا ہے اس کا جواب دینا فاؤنڈیشنل ازم کی کامیابی کی شرط ہے۔ معاصر نوصدرائی فلسفیوں کے خیالات کو بھی اس قسم کی کوششیں کرنی ہوں گی تاکہ ”مسئلہٴ صحت“ کا حل پیش کر سکیں۔

شاید کوئی اس گمان میں ہو کہ وجدانی قضیئوں کے بارے معاصر نوصدرائی فلسفیوں کی آراء علمِ حضوری اور اس سے نکلنے والے علمِ حصولی (بالخصوص سائنسی علم) میں نسبت کی عمومی اور جامع وضاحت کر سکتی ہیں اور ”مسئلہٴ صحت“ کا کوئی توڑ کر سکتی ہیں۔ صدرائی فلسفے اور منطق کی اصطلاح میں وجدانی قضیئے اندرونی حالتوں کے بارے میں ہمارے علومِ حضوری کا انعکاس ہیں۔ (مصباح یزدی، ١٣٨٣، ص ٢٢٦) ان کے ہاں رائج عقیدہ یہ ہے کہ وجدانی قضیئوں کے بارے میں ہمارے احساسات یقینی اور کسی غلطی سے پاک (معصوم) ہیں۔ آیۃ اللہ مصباح یزدی وجدانی قضیئوں کی درستی کے قطعی ہونے کے بارے میں یوں وضاحت دیتے ہیں:

”اس بنا پر اعتراض کے جواب کو ایسی جگہ ڈھونڈنا چاہئے کہ جہاں ہم صورتِ ادراکی اور متعلقِ ادراک پر تسلط حاصل کر لیں اور ان کی مطابقت کو حضوراً اور کسی دوسری شکل کے واسطے کے بغیر سمجھ سکیں۔ اور یہ جگہ وجدانی قضیئے ہیں کہ ایک طرف متعلقِ ادراک کہ مثلاً خوفزدہ ہونے کی حالت ہے، کو حضوراً پا لیتے ہیں اور دوسری طرف ذہن میں اس کے تصور کو بے واسطہ سمجھ لیتے ہیں۔“ (مصباح یزدی، ١٣٨٣، ص ٢٣٦)

لیکن یہ وضاحت مسئلے کو حل نہیں کرتی۔ کیوں کہ ایک سوال پھر بھی باقی ہے کہ مفہوم پر مشتمل قضیئے کس طرح علومِ حضوری کا انعکاس ہیں کہ جن میں مفاہیم کی کوئی جھلک نہیں؟ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ان کا دعویٰ صورتِ ادراکی اور متعلقِ ادراک میں مطابقت کو حضوری طور پر اور کسی دوسری صورت کی وساطت کے بغیر سمجھنے کا ہے۔ مطابقت کا لازمہ مقایسہ کرنا ہوتا ہے اور مقایسہ کرنے کیلئے تصورات کی ضرورت ہوتی ہے۔ بے واسطہ صورتِ ذہنی حاصل کرنا اور علمِ حضوری کے متعلقِ ادراک کو بے واسطہ پا لینا، مطابقت تک نہیں پہنچاتا، کیوں کہ علمِ حضوری میں حاصل ہونے والی واقعیت کے سوا کچھ اور شامل نہیں ہوتا۔ لہٰذا دو واقعیات کا تطابق کسی طرح بھی متعلقِ علمِ حضوری نہیں ہو سکتا کیوں کہ تطابق نسبت ہے اور نسبت کا علم مقایسہ کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ مقایسہ بھی ایسا کام ہے جو ذہن مختلف ادراکی شکلوں پر انجام دیتا ہے۔ اس بنا پر تطابق کا علم حاصل کرنے کیلئے لازم ہے کہ ذہن ادراکی صورت سے ایک اور شکل بنا لے، یعنی دوسرے مرتبے کی صورت، جس کا متعلقِ ادراک کی صورت کے ساتھ تقابل کر کے ان کی مطابقت کو پا سکے۔ پس تطابق کو حاصل کرنا صرف علمِ حصولی کی قلمرو میں ممکن ہے۔

اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آیۃ اللہ مصباح یزدی کی وضاحت کے بعد بھی مسئلہٴ صحت جوں کا توں رہتا ہے۔ انہوں نے سلبی انداز میں مسئلے پر نگاہ ڈالی اور ایسے قضایا کو سامنے لائے ہیں جو واقعیت میں علومِ حضوری کا انعکاس نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کوئی یہ سمجھتا ہو کہ ان کی یہ سلبی وضاحت علومِ حضوری اور ان سے نکلنے والے علومِ حصولی کے مابین انعکاسی رابطے کی توضیح کر سکتی ہے۔

آیۃ اللہ مصباح یزدی نے علمِ حضوری کے خطاء سے پاک ہونے پر کئے گئے بعض اعتراضات کے جواب میں علمِ حضوری اور اس کی تفسیر میں فرق کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (مصباح یزدی، ١٣٨٣، ص ١٨١) ان کا یہ کہنا ہے کہ علمِ حضوری تو معصوم عن الخطاء ہے لیکن ہم اس کی جو تفسیر کرتے ہیں اس میں غلطی ہو سکتی ہے۔ علمِ حضوری صرف خالص دریافت ہے، لہٰذا اگر اس دریافت کے ساتھ تفسیر ملا دی جائے، جیسے بھوک کے ساتھ اس کی تفسیر کے طور پر غذا کی ضرورت آ جائے تو ہم جھوٹی بھوک میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ پس ایک خاص ذہنی حالت کا حصول ہی خالص اور خطاء ناپذیر علمِ حضوری ہے۔ لیکن اس حالت کی دستہ بندی کرنا، جیسے بھوک اور غذا کی احتیاج، تو یہ وہ تفسیر ہو گی جو اس حالت سے ہم نے خود اخذ کی اور یہ حصولی علم ہو گا۔ چنانچہ اس علمِ حصولی میں خطاء آ جانا اس کے ہمراہ پائے گئے علمِ حضوری کی عصمت کو داغدار نہیں کرتا۔

دوسرے لفظوں میں اگرچہ آیۃ اللہ مصباح یزدی نے وجدانی قضیئوں اور علمِ حضوری کی نسبت کے بارے میں کچھ نہیں کہا، لیکن اس بات کی وضاحت کی ہے کہ کون سا قضیہ وجدانی نہیں ہے۔ ایسے قضیئے جو دریافت شدہ حالتوں کا صرف انعکاس نہ ہوں، وجدانی قضیئے نہیں ہیں اور اس وجہ سے ان میں خطاء کا امکان پایا جاتا ہے۔ محمد سربخشی نے اسی بات کی یوں وضاحت کی ہے کہ یہ خطاء کا امکان رکھنے والے قضیئے نظری اور استنتاجی ہیں۔ (سر بخشی، ١٣٩٤ الف، ص ٧٧ تا ٧٩) میرے خیال میں یہ سلبی توضیح بھی پہلے بیان شدہ مسئلے کو حل نہیں کر سکتی۔ کیوں کہ علمِ حضوری کے خالص انعکاس اور اس کی تفسیروں اور تعبیروں میں فرق کرنے کا کوئی واضح اور روشن معیار پیش نہیں کیا گیا ہے۔ واقعاً اس بات کی تشخیص کیسے ممکن ہے کہ کوئی قضیہ علمِ حضوری کا خالص انعکاس ہونے کی وجہ سے وجدانی قضیہ ہے اور بالکل سچ ہے، یا یہ کہ مذکورہ قضیہ تفسیر سے آلودہ ہو کر واقعیت میں وجدانی نہیں رہا اور اس میں خطاء کا امکان در آیا ہے؟

سربخشی صاحب نے خالص وجدانی قضیئوں اور تفسیر کی ملاوٹ والے وجدانی قضیئوں میں تمیز کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ یوں کہتے ہیں: یہ جملہ کہ ”میں بھوک کا احساس رکھتا ہوں“ علمِ حضوری کی نشان دہی کرتا ہے، لیکن بھوک کی اس طرح تشریح کرنا کہ اس سے مراد معدے کا خالی ہونا یا غذا کی ضرورت ہے، وجدانی قضیئوں سے ماورا ہے۔

لیکن یہ وضاحت کافی نہیں ہے کیوں کہ یہاں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ بھوک کسے کہتے ہیں؟ اس لفظ کا مطلب معدے کا خالی ہونا یا غذا کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی لئے جب جھوٹی بھوک کی بات ہوتی ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ بھوک کا جو بھی معنی ہو، اس کا احساس واقعیت کے الٹ ہوتا ہے۔ اس بنا پر یہ قضیہ کہ ”میں بھوک کا احساس رکھتا ہوں“ جھوٹ ہو سکتا ہے اور اس لئے یہ وجدانی قضیہ نہیں ہے۔ اس حالت مِیں مَیں یہ احساس کرتا ہوں کہ میرا بھوک کا احساس ایک غلط گمان ہے اور اس میں غلطی یہ ہے کہ اس ذہنی حالت کو بھوک کی حالت کی جگہ رکھ رہا ہوں۔ لہٰذا یہ قضیہ کاذب ہو سکتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ واقعی وجدانی قضیئے کی علمِ حضوری کے ساتھ نسبت کی ایجابی توضیح پیش کئے بغیر بعض قضیئوں کے وجدانی ہونے کی نفی واقعی وجدانی امور اور غیر واقعی امور میں تمیز کرنے میں کوئی مدد نہیں کرتی۔

بدیہیاتِ اولیہ کا علمِ حضوری سے رجوع

مقالے کے پہلے حصے کا حاصل یہ ہے کہ علومِ حصولی کو علومِ حضوری کی طرف پلٹانا نظریۂ دانش (epistemology) کے کسی سوال کا جواب نہیں دیتا۔ اب مقالے کے دوسرے حصے کا آغاز کرتا ہوں۔ انسانی علم کے سلسلے میں علمِ حضوری کو اہم قرار دینے والا ایک اور تصور آیۃ اللہ مصباح یزدی کا بدیہیاتِ اولیہ کو علمِ حضوری سے ارجاع دینا ہے۔ (مصباح یزدی، ١٣٨٣، ص ٢٣٣ تا ٢٣٩) بدیہیاتِ اولیہ سے مراد ایسے قضیئے ہیں کہ جن میں استعمال ہونے والے مفاہیم ان کی تصدیق کیلئے کافی ہوں۔ مثلاً تصدیق کے مرحلے میں اس قضیئےکہ ”کل، جزء سے بڑا ہے“، کیلئے یہی کافی ہے کہ اس کے مفہوم کو اچھے سے سمجھ لیں۔ اور مفاہیم کی فہم حاصل کرنے کے بعد کسی اور چیز، مثلاً استدلال، تجربہ، . . . کی ضرورت نہیں ہے۔

ان کے عقیدے میں انسان کے علوم کا اہم حصہ ہستی شناسی اور فلسفی علوم ہیں اور چونکہ فلسفی علوم بدیہی اور ابتدائی قضیئوں سے استنتاج پر مبنی ہیں، لہٰذا اگر ان کے درست ہونے کی ضمانت پیدا کر لی جائے تو علومِ حصولی کا اصلی مسئلہ حل ہو جائے گا۔ درست ہونے کی ضمانت سے مراد علومِ حصولی یا ادراکی شکلوں کی ان واقعیتوں کے ساتھ مطابقت کا قابلِ اطمینان انکشاف کر لینا ہے جو ان شکلوں یا قضیئوں کا موضوع ہیں۔ علومِ حصولی میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس مطابقت کا انکشاف اگر ادراکی شکلوں یا دوسرے مرتبے کے قضیئوں کے راستے سے ہو تو دوسرے قضیئوں کی درستی علیحدہ ضمانت کی محتاج ہے اور وہ بھی اپنی نوبت میں تیسرے مرتبے کے قضیئوں کے ذریعے حاصل ہو گی اور یوں درستی کی ضمانت تک رسائی ممکن نہ ہو گی۔ اس بنا پر واحد راستہ یہ ہے کہ اولین بدیہی قضیئوں کی اپنے متعلقات سے بلاواسطہ مطابقت کو ڈھونڈ نکالیں۔ دوسرے الفاظ میں متعلقِ علم حصولی کے قضیئوں کے ساتھ انطباق کو علمِ حضوری کے ذریعے پا لیں۔

علمِ حضوری کے راستے سے بدیہیاتِ اولیہ کی واقعیت سے مطابقت کیسے پائی جا سکتی ہے؟ تنہا راستہ یہی ہے کہ خود ان قضیئوں اور ان کے متعلقات تک بھی بے واسطہ دسترس حاصل ہو تاکہ ان کے انطباق کو بھی بلاواسطہ درک کر سکیں۔ اس ہدف تک پہنچنے کیلئے بدیہیاتِ اولیہ میں استعمال ہونے والے والے مفاہیم کی جڑوں کو سمجھنا ہو گا اور ساتھ ساتھ ان میں موضوع اور محمول کو ایک سمجھنے کے حکم کی بنیاد کو بھی ڈھونڈنا ہو گا۔ اس سے پہلے آیۃ الله مصباح یزدی نے ثابت کیا ہے کہ ابتدائی بدیہی قضیئے دوسرے درجے کی فلسفی معقولات سے شکل پذیر ہوتے ہیں۔ (مصباح یزدی، ١٣٨٣، ص ٢١٨ تا ٢١٩) ثانوی فلسفی معقولات، مثلاً علت و معلول کے مفاہیم، ایسے مفاہیم ہیں جو غور و فکر اور ذہنی اندازہ گیری سے ہاتھ آتے ہیں۔ یہ معقولاتِ اولیہ، مثلاً پانی یا سفیدی کے مفاہیم، کے برخلاف ہیں جو خارجی اشیاء کا سیدھا سیدھا انعکاس ہیں۔ اسی طرح انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی ہے کہ دوسرے درجے کی فلسفی معقولات کے پہلے گروہ کی جڑیں علومِ حضوری ہیں۔ (مصباح یزدی، ١٣٨٣، ٢٢٠) استقلال، احتیاج، علت اور معلول جیسے مفاہیم ہمارے نفس کے بارے علومِ حضوری اور اس کے ارادے اور اندرونی حالتوں سے رابطے سے نکلتے ہیں۔ اس بنا پر ان مفاہیم کی اپنے مصدر سے مطابقت کو حضوری علم سے سمجھا جاتا ہے۔

دوسری طرف یہ سب احکام تحلیلی احکام ہیں۔ تحلیلی احکام وہ ہوتے ہیں کہ ”جن کا محمول مفہوم اُن کے موضوع کی تحلیل سے ہاتھ آتا ہے“۔ چونکہ موضوع کا مفہوم، مثلاً معلول کا مفہوم، محمول کے مفہوم پر مشتمل ہوتا ہے، مثلاً علت کی احتیاج ہونے کا مفہوم، اور موضوع اور محمول کے اتحاد کو ”ذہن کے داخلی تجربے“ سے سمجھا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں موضوع اور محمول کے مفاہیم کا علمِ حضوری ہی ان دونوں کے اتحاد کے علمِ حضوری کے لیے کافی ہے۔ نتیجتاً نہ صرف خود قضیئوں کو علمِ حضوری کے ذریعے پاتے ہیں بلکہ ان کی واقعیت سے مطابقت کو بھی علمِ حضوری سے ڈھونڈ لیتے ہیں۔ لہٰذا بدیہیاتِ اولیہ درستی کی ضمانت رکھتے ہیں۔

میرے لیے یہ روشن نہیں کہ اول تو آیۃ اللہ مصباح یزدی بدیہیاتِ اولیہ میں کام آنے والے مفاہیم کی جڑیں کیسے تلاش کرتے ہیں؟ جیسا کہ ہم نے پہلے دیکھا ہے کہ قضیئوں کی درستی کی ضمانت اس بات سے مشروط تھی کہ خود قضیہ اور اس سے مربوط واقعیت، دونوں کو علمِ حضوری سے پا سکیں تاکہ دونوں کے انطباق کو بھی علمِ حضوری سے سمجھ سکیں۔ صدرائی فلسفیوں میں رائج تصور یہ ہے کہ سبھی مفاہیم اور سبھی قضیئے ذہنی ہیں اور اس بنا پر ان تک مستقیم اور بلا واسطہ دسترس ناممکن ہے۔ ثانوی فلسفی معقولات اور باقی مفاہیم میں کوئی فرق نہیں ہے۔ حتیٰ حسی مفاہیم بھی ہمارے ذہن میں حاضر ہیں اس لئے حسی مفاہیم پر مشتمل قضیئے کسی واسطے کے بغیر ہماری دسترس میں ہیں۔ لہٰذا استعمال ہونے والے مفاہیم کی جڑیں بدیہیاتِ اولیہ میں ڈھونڈنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

اس کے علاوہ آیۃ الله مصباح یزدی فلسفی مفاہیم کی اپنے مصادر سے مطابقت کی حضوری دریافت کی بات کرتے ہیں۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ ان کے عقیدے میں مفرد مفاہیم، یا تصورات، صرف واقعیتوں سے حکایت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ (مصباح یزدی، ١٣٨٣، ص ٢٢٣) مقصد یہ ہے کہ ایسا سادہ تصور جو قضیئے کے اندر شامل نہیں، وہ خود بخود کسی چیز پر دلالت نہیں کرتا اور اسی وجہ سے مفرد تصورات کو سچ یا جھوٹ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس بنا پر یہاں فلسفی مفاہیم اور ان کے مصدر کے بیچ مطابقت کی بات کرنا غلط، یا کم از کم مبہم ہے۔ اگر بالفعل حکایت تنہا تصدیقات میں سے ہے تو اس صورت میں صرف ایسے قضیئوں مثلاً ”یہ چیز معلول ہے“ یا ”یہ چیز علت ہے“، کے بارے ہی مطابقت کی بات کی جا سکتی ہے۔ گویا تصورات کی جڑیں ڈھونڈنے میں دو مسائل ہیں: 1. آیۃ الله مصباح یزدی کا نظریہ اس سوال کو اٹھانے کی احتیاج نہیں رکھتا، 2. تصورات میں مطابقت یا عدم مطابقت کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اب ان دو مربوط مسائل پر بحث کروں گا۔

آیۃ الله مصباح یزدی کا مفروضہ یہ ہے کہ سبھی ابتدائی بدیہی قضیئے تحلیلی ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بعض ابتدائی بدیہی قضیئے، کانٹ کی مشہور تعریف کے مطابق، تحلیلی نہیں ہیں۔ (Kant, 1997, pp. 141 – 142) یہ قضیہ کہ ”الف کا الف نہ ہونا ممکن نہیں“ ایک ابتدائی بدیہی قضیہ ہے لیکن اس کے محمول کا مفہوم، ”اس کیلئے الف نہ ہونا ممکن نہیں“، موضوع کے مفہوم، یعنی ”الف“، میں داخل نہیں ہے۔

محمد حسین زادہ نے اس اعتراض کے جواب میں دعویٰ کیا ہے کہ آیۃ الله مصباح یزدی نے کانٹ کی تعریف کو اختیار نہیں کیا ہے۔ (حسین زادہ، ١٣٩٥، ص ١٧٧ تا ١٧٩) ان کی تفسیر کی بنا پر تحلیلی قضیئوں کی جو تعریف موردِ نظر ہے اس میں وہ قضیئے بھی شامل ہو جاتے ہیں کہ جن کا محمول اگرچہ موضوع میں داخل نہیں لیکن موضوع کا ”لازم بیّن“ ہے۔ لازم بیّن ایسا مفہوم ہے جو موضوع کے مفہوم سے خارج ہے لیکن اس سے جدا بھی نہیں ہو سکتا۔ نیز لازم بیّن امور کیلئے مفہومی طور پر جدا نہ ہونا اثبات کا مجتاج بھی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اپنے جز سے بڑا ہونا کُل کے مفہوم کا لازم بیّن ہے۔ کیوں کہ اس مفہوم میں داخل نہیں لیکن ساتھ ہی کُل کے مفہوم سے الگ بھی نہیں ہے۔ تحلیلی قضیئوں کی اس وسیع معنی میں تفسیر میں سبھی ابتدائی بدیہی قضیئے شامل ہو جاتے ہیں۔

میرے خیال میں یہ جواب مسئلے کو حل نہیں کرتا۔ اگر محمول کا مفہوم، موضوع کے مفہوم سے خارج ہو تو یہ کہنا ممکن نہیں رہتا کہ موضوع و محمول کی وحدت بے واسطہ اور حضوری طور پر درک کی جا سکتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ لازم بیّن موضوع پر واضح طور پر حمل ہوتا ہے لیکن چونکہ دو مفاہیم میں عینیت یا اشتمال کا رابطہ نہیں ہے لہٰذا مفاہیم کا علمِ حضوری موضوع اور محمول کے ایک ہونے کے علمِ حضوری کے موضوع اور محمول کے لئے کافی نہیں ہے۔ دوسرے الفاظ میں محمول اور موضوع کے مفاہیم کا علمِ حضوری ہی ان دو کے اتحاد کا علمِ حضوری نہیں ہے۔

اس بنا پر یہ کہنا ممکن نہیں کہ تحلیلی قضیئوں میں موضوع اور محمول کا اتحاد ان وسیع معنوں میں حضوری علم کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ حاصلِ بحث یہ کہ یہ حل صرف اسی صورت میں ممکن ہے اگر آیۃ الله مصباح یزدی تحلیلی ہونے کا معیار کانٹ کی تعریف کو قرار دیں۔ جناب حسین زادہ خود اس نکتے سے اگاہ تھے کہ موضوع اور محمول کے اتحاد کا علمِ حضوری مفہومی شمولیت کا تقاضا کرتا ہے اسی لئے انجانے میں تناقض کا شکار ہو کر کہتے ہیں: ”اگرچہ بڑا ہونا کُل کے مفہوم کا عین یا جزء نہیں ہے لیکن اس کا لازمِ مفہومی ہے اور بڑا ہونا کُل کے مفہوم میں سمویا گیا ہے“۔ (حسین زادہ، ١٣٩٥، ص ١٧٨)

چوتھی مشکل یہ ہے کہ کانٹ کی معروف تعریف کے مطابق تحلیلی قضیئے تکرار (tautology) ہیں اور اس وجہ سے با معنی دانش سے خالی ہیں۔ یہ قضیہ کہ ”ہر معلول کوئی علت رکھتا ہے“ اپنے اندر کوئی قیمتی علم نہیں رکھتا۔ کیوں کہ اگر کسی چیز کا معلول ہونا پتا ہو تو اس کا علت کا محتاج ہونا بھی معلوم ہے۔ اس بنا پر اس تحلیلی قضیئے کی تصدیق ہمارے لئے کسی نئی دانش کا در وَا نہیں کرتی۔ دوسرے الفاظ میں یہ بات اس چیز کے معلول ہونے کیلئے کسی معیار کو پیش نہیں کرتی اور اس پہلو سے ایسے قضیئوں مثلاً ”ہر ممکن علت رکھتا ہے“ یا ”ہر حادث علت رکھتا ہے“ سے مختلف ہے۔ یہ دو قضیئے معلولیت کے معیار کو علی الفرض ہمارے حوالے کرتے ہیں اور اس بنا پر ان کی تصدیق اپنے ساتھ تازہ دانش لاتی ہے کہ ہر وہ چیز جس کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہے، ہونے کیلئے کسی سبب کی محتاج ہے۔ اسی طرح دوسرے قضیئے کی تصدیق سے یہ پتا چلتا ہے کہ ہر وہ چیز جو ماضی میں نہیں تھی، اپنے ہونے کیلئے علت مانگے گی۔ نتیجتاً اگر ابتدائی بدیہی قضیئے اپنی مشہور تعریف کے مطابق کانٹی ہوں تو وہ ہماری فلسفی دانش میں کوئی اضافہ نہیں کر سکتے۔ تیسری اور چوتھی مشکل کا حاصل یہ ہے کہ احکام کی ابتدائی بدیہیات تحلیلی نہیں ہیں۔

پانچویں مشکل یہ ہے کہ ابتدائی بدیہی قضیئوں کے تحلیلی ہونے کے مفروضے کے مطابق تحلیلی امور کے درست ہونے کو علمِ حضوری کی طرف ارجاع کی کیا ضرورت ہے؟ عمومی خیال یہ ہے کہ، تحلیلی اور تالیفی کے بیچ میں فرق کے منکرین کو چھوڑ کے، تحلیلی قضیئوں کا علم کسی شک و شبہے سے بالاتر ہے۔ منطقی پازیٹویزم (positivism) کے قائل لوگ ایسے فلسفی تھے جو منطق اور ریاضی کے احکام کو تحلیلی سمجھتے تھے۔ (Ayer, 1971, pp. 64 – 83) اس کا محرک یہ تھا کہ تحلیلی ہونے کے مفروضے کے ساتھ ان قضیئوں کی پیشگی آگاہی وضاحت کی محتاج نہیں رہتی۔

آیۃ الله مصباح یزدی بھی تحلیلی اور تالیفی قضیئوں میں تفریق کے قائل نہیں۔ اس بنا پر ابتدائی بدیہی قضیئوں کو تحلیلی سمجھتے ہوئے ان کو علمِ حضوری کی طرف ارجاع دینے کی کیا دلیل ہے؟ اس اعتراض سے پہلو بچانے کا ایک طریقہ یہ تفسیر ہے کہ وہ بہت سے فلسفیوں کے برخلاف احکامِ تحلیلی سے پیشگی آگاہی کو وضاحت کا محتاج سمجھتے ہیں اور اس ہدف تک پہنچنے کیلئے احکامِ تحلیلی کو علومِ حضوری سے ارجاع دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ اس سوال کہ ”تحلیلی احکام کے بارے میں ہماری دانش تجربے سے بے نیاز کیوں ہے؟“، کا یہ جواب دیتے کہ یہ احکام علومِ حضوری سے نکالے جاتے ہیں اور اس بنا پر ان کے بارے میں ہماری سمجھ تجربے کی محتاج نہیں ہے۔ لیکن اس تفسیر کا موجہ ہونا اس پر موقوف ہے کہ احکامِ تحلیلی کی پیشگی آگاہی کے تشریح کا محتاج ہونے پر کوئی دلیل قائم کی گئی ہو، جبکہ انہوں نے ایسی کوئی دلیل قائم نہیں کی ہے۔ بعض فلسفیوں نے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ تحلیلی ہونا، پیشگی آگاہی کے تشریح کا محتاج ہونے کو کم نہیں کرتا۔ (BonJour, 1985, pp. 199 – 207)

آیۃ الله مصباح یزدی کے عقیدے میں علمِ حصولی میں چونکہ واسطہ آ جاتا ہے اس لئے وہ کلی طور پر خطاء کی زد پر ہے۔ اس کی درستی کی اکلوتی ضمانت یہ ہے کہ وہ کسی طرح علمِ حضوری کی طرف پلٹ جائے۔ (مصباح یزدی، ١٣٨٣، ص ٢٣٦) اس بات کی دلیل یہ ہے کہ متعلقِ علمِ حصولی کی بلا واسطہ آگاہی پانا ممکن نہیں ہے۔ چونکہ یہ رسائی بے واسطہ نہیں ہے لہٰذا سبھی علومِ حصولی خطاء پذیر ہیں اور اسی لئے ہمیں ایسے علومِ حصولی کا سراغ لگانا چاہئیے کہ جو اپنے متعلقات تک بے واسطہ رسائی رکھتے ہوں۔ تحلیلی قضیئوں سے مربوط علومِ حصولی یہ صفت رکھتے ہیں اور ان کو خطاء سے پاک سمجھا جا سکتا ہے، لیکن یہ بات قابلِ قبول نہیں ہے۔

تحلیلی قضیئے اس لئے درست ہوتے ہیں کہ وہ تکراری (tautological) ہوتے ہیں اور خارجی دنیا میں کسی چیز کے تحقق پر دلالت بھی نہیں کرتے اور اسی لئے مثلاً اس بات کی تصدیق کی جا سکتی ہے کہ ”ہر کنوارہ، غیر شادی شدہ ہے“، چاہے ہماری کنوارے لڑکوں اور ان کی خصوصیات سے آگاہی ذہنی صورتوں اور علومِ حصولی کے طریقے سے ملی ہو۔ اس قضیئے کے خطاء ناپذیر ہونے کو سمجھنے کیلئے موردِ نظر طبیعی اشیاء (مثلاً کنوارے لڑکوں) تک بلا واسطہ رسائی لازم نہیں ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ علمِ حصولی کے باواسطہ ہونے سے خطاء پذیر ہونا لازم نہیں آتا۔

چھٹا اعتراض یہ ہے کہ آیۃ الله مصباح یزدی ابتدائی بدیہیات کی درستی کو علمِ حضوری کے مفاہیم اور ان مفاہیم سے متعلق واقعیتوں کا حامل ہونے سے مشروط سمجھتے تھے تاکہ ان دو کے درمیان مطابقت کو بھی علمِ حضوری سے پا سکیں۔ (مصباح یزدی، ١٣٨٣، ص ٢٢٦) لیکن انہوں نے صرف ان قضیئوں کے تحلیلی ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے اور قضیئوں کے مربوط واقعیتوں سے منطبق ہونے کے علمِ حضوری کے بارے میں کوئی بات نہیں کی ہے۔ ممکن ہے کہ جواب میں یہ کہا جائے کہ ابتدائی بدیہی قضیئوں کے مفاہیم کی جڑیں علومِ حضوری میں تلاش کرنا اسی مقصد کیلئے تھا۔ مذکورہ تلاش کی بنیاد پر علت و معلول کے مفاہیم کو ارادے کے نفس سے رابطے سے حاصل کیا جاتا ہے اور چونکہ مفہوم اور مصداق، ہر دو کو علمِ حضوری سے پاتے ہیں، مفہوم کی مربوطہ واقعیت سے مطابقت بھی علمِ حضوری سے ہی پاتے ہیں۔ اس بنا پر علمِ حضوری ارادے کے نفس کے محتاج ہونے سے مربوط قضیئے کی درستی کی ضمانت دیتا ہے۔ اس جواب میں مسئلہ یہ ہے کہ ارادے کے نفس کے محتاج ہونے سے مربوط قضیہ ابتدائی بدیہی قضیہ نہیں ہے کیوں کہ استاد مصباح یزدی صاحب کی نظر میں ابتدائی بدیہی قضیہ یہ ہے کہ ”ہر معلول علت رکھتا ہے“، جبکہ جو قضیہ درستی کی ضمانت رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ ”میرا یہ ارادہ میرا محتاج ہے“۔ اس بنا پر علمِ حضوری ابتدائی بدیہی قضیئوں کی درستی کی ضمانت نہیں دے سکتا۔

آیۃ الله مصباح یزدی نے خود اس اعتراض کو بیان کر کے جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ارادے کے نفس کا محتاج ہونے کی حضوری سمجھ ان دو کی خاص سرشت سے مربوط نہیں ہے اور جس چیز کو ہم علمِ حضوری میں پاتے ہیں وہ وابستگی کا رابطہ ہے۔ اس بنا پر وابستگی کے سبھی موارد میں احتیاج وجود رکھتی ہے اور ارادے کے نفس کا محتاج ہونے کی حضوری دریافت اس کلی حکم کی درستی کی ضمانت دینے کو کافی ہے کہ ”ہر معلول علت کا محتاج ہے“۔ در واقع یہ حکم صرف ارادہ اور نفس کے معاملے کی تعمیم سے نہیں نکلا، بلکہ خود یہ علمِ حضوری اس کلی بدیہی قضیئے پر اعتقاد کو ہمارے اندر پیدا کرتا ہے۔

البتہ دوسرے موارد میں وابستگی کا ہونا کسی برہان سے ثابت ہونا ضروری ہے کیوں کہ وہ سبھی قضیئے جو کلی احاطہ (حصر) رکھتے ہیں، یہ خصوصیت ان میں مشترک ہے کہ اپنے مصداق کے خارجی دنیا میں وجود پر کوئی دلالت نہیں رکھتے۔ حسین زادہ کے الفاظ میں سبھی ابتدائی بدیہیات حقیقی قضیئے ہیں اور حقیقی قضیئے کم از کم شرطیہ قضیئے ضرور ہیں۔ (حسین زادہ، ١٣٩٥، ص ١٨٣) شرطیہ قضیئے خود بخود اپنے مقدمے کے تحقق پر دلالت نہیں رکھتے اور اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ خارجی دنیا کے بارے میں کوئی خبر دیتے ہیں۔ اس بنا پر ان موارد میں معلولیت اور وابستگی کہ جو علمِ حضوری میں معلوم نہیں، استدلال کی محتاج ہے۔

میرے مطابق آیۃ الله مصباح یزدی کا جواب مسئلے کو حل نہیں کرتا۔ کیوں کہ ابتدائی بدیہی قضیہ کلی ہے اور وہ ارادے اور نفس کے بارے شخصی علمِ حضوری کا انعکاس نہیں ہو سکتا۔ اس بنا پر اگر علمِ حضوری اور علمِ حصولی کی نسبت پر وارد کئے گئے ان اعتراضات، جو میں نے مقالے کے شروع میں پیش کئے، سے صرفِ نظر کی جائے تو بھی علمِ حضوری کی ابتدائی بدیہی قضیئوں سے نسبت چار و ناچار ایک مختلف طرح کی نسبت ہو گی اور سوال یہ ہے کہ شخصی علمِ حضوری ہمارے اندر ایک کلی اعتقاد کیسے پیدا کر سکتا ہے؟ کیا اِس علمِ حضوری اور اُس کلی علمِ حصولی کے درمیان دوسرے حصولی علوم بھی واسطے کا کردار ادا کرتے ہیں کہ جو جزئی ہوں گے؟ اگر یہ واسطے وجود رکھتے ہوں تو اعتراض اپنی جگہ باقی رہے گا۔ اور اگر شخصی حضوری علم اور کلی حصولی علم کے بیچ کوئی واسطہ نہ ہو تو پھر اس نسبت کی وضاحت کرنی ہو گی۔ کسی توضیح کی غیر موجودگی میں صرف ان دو میں تولیدی نسبت کا دعویٰ کر دینا ہی اس کو قبول کرنے کی دلیل فراہم نہیں کرتا۔

اگر اس اعتراض سے نظریں بچا بھی لیں تو بھی ایک اور سوال کا سامنا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ اس تفسیر سے ابتدائی بدیہی احکام کے تحلیلی ہونے سے توسل کس ضرورت کو برطرف کرتا ہے؟ پہلے بیان شدہ توصیف کے مطابق ارادے کے نفس کے محتاج ہونے کا شخصی علمِ حضوری خود ہی اس ابتدائی بدیہی حکم ”ہر معلول علت رکھتا ہے“ کے درست ہونے کی تضمین کے لئے کافی ہے۔ اس بنا پر ابتدائی بدیہیات کے تحلیلی ہونے کا سہارا لینا اور ان کو علمِ حضوری پر مبنی قرار دینا غیر ضروری لگتا ہے۔

میرے خیال میں آیۃ الله مصباح یزدی کی باتوں میں ایک کشمکش کا احساس ہوتا ہے۔ اس کشمکش کا سبب یہ ہے کہ، سابقہ اعتراضات سے ہٹ کر، ابتدائی بدیہیات کی درستی کی ضمانت کے لئے دو باہم جدا راستے ہیں۔ ایک راستہ یہ ہے کہ ان کے تحلیلی ہونے پر تکیہ کریں اور اس صورت میں نہ مفاہیم کی علومِ حضوری میں جڑیں ڈھونڈنے کی کوئی ضرورت ہے نہ ہی شخصی موارد کی کلی قضیئے کی طرف تعمیم کے مسئلے سے پالا پڑے گا۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ ارادے کے نفس کا معلول ہونے کے شخصی علمِ حضوری سے سابقہ توضیح کے ساتھ کلی بدیہی کا حکم نکالیں اور اس صورت میں ابتدائی بدیہی قضیئوں کو تحلیلی قرار دینے اور تحلیلی قضیئوں کو علومِ حضوری پر مبنی قرار دینے کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آیۃ الله مصباح یزدی دو کشتیوں کے سوار ہیں اور ان کی باتوں میں کھچاؤ ان دو مستقل راستوں میں فرق کو مد نظر نہ رکھنے سے آیا ہے اور پہلے سے موجود مسائل میں ابہام اور کشمکش کا اضافہ کیا ہے۔

کیا اس کشمکش کو برطرف کیا جا سکتا ہے؟ کیا ان کے نظریئے کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک تو علمِ حضوری سے تحلیلی قضیئوں کی مطابقت سے توسل کیا جائے اور ساتھ ہی علمِ حضوری ثانوی فلسفی معقولات کی ان کے مصادیق سے مطابقت کا محتاج بھی رہے؟ امیر حسن زاد یوسفی اور داوٴد حسینی نے ایک ایسی تفسیر پیسش کی ہے کہ گویا اس کشمکش کو ختم کرتی ہے۔ (زاد یوسفی و حسینی، ١٣٩٢، ص ١١٠ – ١١٤) ان کی تفسیر کے مطابق استاد مصباح یزدی کا نظریہ تین درجوں پر مشتمل ہے۔ پہلا قدم ابتدائی بدیہیات کے تحلیلی ہونے سے توسل اور تحلیلی قضیئوں کی درستی کو علمِ حضوری کی بنیاد فراہم کرنا ہے۔ لیکن ابتدائی بدیہی قضیئوں کا تحلیلی ہونا اور تحلیلی قضیئوں کی درستی کو علمِ حضوری پر مبنی قرار دینا ان کے درست ہونے کی ضمانت کے لئے کافی نہیں ہے کیوں کہ اس استدلال سے زیادہ سے زیادہ یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ ان قضیئوں میں استعمال ہونے والے مفاہیم میں استلزام کا رابطہ برقرار ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان مفاہیم کا خارجی دنیا میں کوئی مصداق نہ ہو۔ اس لئے کہ یہ قضیئے خارج پر بھی دلالت کرتے ہوں، یہ لازم ہے کہ دوسرا قدم اٹھایا جائے۔ آیۃ الله مصباح یزدی ان کے مصادیق کے علمِ حضوری سے توسل کرتے ہوئے، مثلاً ارادے کے نفس کا معلول ہونے کا حضوری علم، یہ قدم اٹھاتے ہیں۔ چونکہ مذکورہ مفاہیم فلسفی ہیں اور علومِ حضوری سے لئے گئے ہیں، ابتدائی بدیہی قضیئوں کا مصادیق رکھنا ثابت ہو جاتا ہے۔ لیکن ابھی تیسرا قدم باقی ہے کیوں کہ یہ حکم ڈھونڈے گئے مصادیق سے مختص نہیں ہونا چاہئے۔ آیۃ الله مصباح یزدی نے ایک اعتراض کی شکل میں اور ایک گو مگو جواب دیا ہے تاکہ اس مسئلے کو حل کریں اور علیت کے حکم کی دوسرے موارد میں سرایت کو ایسے دلائل کی بنیاد پر استوار کریں کہ جو ان موارد میں وجودی وابستگی کو ثابت کرتے ہوں۔

میرے خیال میں یہ تفسیر مذکورہ کشمکش کو ختم نہیں کرتی۔ کیوں کہ جیسا کہ ہم نے دیکھا، یہ دو راستے الگ الگ ہیں۔ آئیے اس کو آزمانے کے لئے ارادے کے معلول ہونے کو اس نظریئے سے حذف کرتے ہیں۔ آیۃ الله مصباح یزدی اس کے بغیر بھی خود قضیئوں کی حضوری دریافت اور ان کی درستی کا یقین حاصل کر سکتے ہیں اور ان قضیئوں کے دیگر مصادیق دکھانے کے لئے وجودی وابستگی کو ثابت کرنے والے دلائل سے متوسل ہو سکتے ہیں۔ ثانوی فلسفی معقولات کے انتزاع کے منشاء کی حضوری شناخت کا ہونا یا نہ ہونا اس نظریئے میں کوئی تبدیلی نہیں لاتا۔ دوسری طرف بدیہیات کے تحلیلی ہونے کو بھی اس نظریئے سے نکالا جا سکتا ہے۔ ابتدائی بدیہی کلی قضیئے کو دوبارہ علمِ حضوری اور نفس و ارادے کے رابطے سے نتھی کیا جا سکتا ہے۔

اس کشمکش کو ختم کرنے کا ایک اور امکان یہ ہے کہ ارادے اور نفس کے حضوری علم سے توسل کسی اور ہدف کا پیچھا کر رہا ہے۔ ممکن ہے آیۃ الله مصباح یزدی علامہ طباطبائی کے عقیدے سے متفق ہوں کہ علمِ حصولی علمِ حضوری سے مشروط ہے۔ اور اسی لئے علت و معلول کے مفاہیم کی حضوری جڑیں دکھانے کیلئے نفس و ارادہ کے رابطے کی بلا واسطہ دریافت سے متوسل ہو رہے ہوں۔ لیکن واقعیت یوں نہیں ہے۔ آیۃ الله مصباح یزدی نے اس خیال کو رد کیا ہے۔ (مصباح یزدی، ١٣٩٣، ص ٣٨٥) اس بنا پر یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ ان کے عقیدے میں پائی جانے والی کشمکش ابھی باقی ہے۔

خاتمہ

ملا صدرا کے فلسفے کے قائل حضرات میں یہ عقیدہ رائج ہے کہ علمِ حضوری بشری دانش میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہاں اس رائج عقیدے کے دو احتمالی مصادر کو پرکھا گیا ہے۔ ایک علامہ طباطبائی کا خیال ہے کہ علومِ حصولی کی علومِ حضوری کی طرف بازگشت ہوتی ہے۔ دوسرا آیۃ الله مصباح یزدی کا خیال ہے کہ جو ابتدائی بدیہیات کے بارے ہماری شناخت کو بعض حضوری علوم کی طرف پلٹاتا ہے۔

ہم نے دیکھا کہ علامہ طباطبائی کی رائے نظریۂ دانش میں کوئی خاص نتیجہ نہیں دیتی۔ اول تو یہ کہ اگر اس رائے کو مان بھی لیں تو بھی حسی خطائیں اپنی جگہ ممکن رہیں گی اور بنیادی ہدف بھی یہ نہیں تھا کہ یہ خیال حسی خطاء اور توہم کو ختم کرے۔ دوسری طرف سے اصل مسئلہ علمِ حضوری اور حسی معلومات کے بیچ توجیہی رابطے کا ہے اور یہ عقیدہ اس مسئلے کے حل پر کوئی روشنی نہیں ڈالتا۔

اس رائج عقیدے کا دوسرا سرچشمہ بدیہیاتِ اولیہ کے علمِ حضوری کی طرف پلٹنے کا عقیدہ ہے۔ لیکن جیسا کہ ہم نے دیکھا، یہ رائے اندرونی مشکلات کی شکار ہے کہ جو اس کی صحیح تفسیر تک رسائی کو ابہام سے دوچار کرتی ہیں۔ اور اگر اندورنی کشمکش سے نظریں چرا بھی لیں تو بھی بدیہیاتِ اولیہ کی درستی کی تضمین کے لئے ہمارے سامنے دو راستے ہوں گے۔ ایک یہ کہ ابتدائی بدیہیات کے تحلیلی ہونے سے توسل کریں اور اس راستے میں رکاوٹ یہ ہے کہ فلسفے میں جن بدیہیات کا استعمال ہوتا ہے وہ تحلیلی نہیں ہیں۔ کیوں کہ: 1. سبھی بدیہیاتِ اولیہ کو تحلیلی قرار دینے کی کوئی قانع کنندہ دلیل پیش نہیں کی گئی، 2. یہ مثال کہ ”ہر معلول علت رکھتا ہے“ اصلِ علیت نہیں ہے اور یہ قضیہ محض ایک بے فائدہ تکرار ہے، 3. بعض ابتدائی بدیہی قضیئے اس خیال کو تقویت پہنچانے کے معنوں میں تحلیلی نہیں ہیں۔

ایک اور راستہ، یعنی بدیہیاتِ اولیہ کا علمِ حضوری سے ارجاع، بھی ان کی درستی کی ضمانت نہیں دیتا۔ کیوں کہ پھر سے ایک تو سبھی ابتدائی بدیہیات کے خاص موارد کی حضوری شناخت کی کوئی دلیل پیش نہیں کی گئی، اور دوسری بات یہ کہ نفس اور ارادے کے رابطے کے حضوری علم کی مخصوص مثال بھی زیادہ سے زیادہ ایک تکراری بات کا یقین، جیسے ” ہر معلول علت رکھتا ہے“، ہمارے اندر پیدا کرتی ہے۔ لیکن یہ یقین اصلِ علیت، جیسے ہر ممکن یا حادث علت رکھتا ہے، تک نہیں پہنچاتا۔ تیسری بات یہ کہ بعض ابتدائی بدیہی احکام ایسے ہیں کہ ان کے خاص موارد کو علمِ حضوری کے ذریعے پایا نہیں جا سکتا۔ مثال کے طور پر کیسے کہا جا سکتا ہے کہ ”ہر کُل اپنے جزء سے بڑا ہے“ یہ بات علمِ حضوری سے پتا چلتی ہے؟ کُل کی جزء سے بڑا ہونے کی نسبت ایک ایسی نسبت ہے جو طبیعی اشیاء کے بچ برقرار ہے اور طبیعی اشیاء سے علمِ حضوری کا تعلق نہیں ہے۔

آخری نتیجہ یہ ہے کہ دونوں نظریات، جن کے بارے میں ہم نے بحث کی، نظریۂ دانش کے سوالوں کے جواب دینے میں علمِ حضوری کے روشن کردار کو دکھانے میں ناکام ہیں۔ اس بنا پر جدید دور میں ملا صدرا کے فلسفے کے حامیوں میں رائج اس عقیدے کی حمایت میں کوئی اچھے دلائل وجود نہیں رکھتے۔ اسی لئے معاصر صدرائی فلسفہ نظریۂ دانش کے مسائل کے حل میں علمِ حضوری کا کوئی بڑا کردار دکھانے میں ناکام رہا ہے۔

فہرست منابع

1. حسین زادہ، محمد، (۱۳۸۵) علم حضوری: ویژگیہا، اقسام و گسترہ، معرفت فلسفی، ۴(۲)، ۱۰۵–۱۴۶۔
2. حسین زادہ، محمد (۱۳۹۵) معیار صدق بدیہیات اولیہ؛ در مصباح یزدی محمد تقی، رہیافت ہا و رہ آوردہا: دیدگاہ ہای حضرت آیہ اللہ محمد تقی مصباح یزدی، قم، انتشارات مؤسسہ آموزشی پژوہشی امام خمینی (رہ)۔
3. زاد یوسفی، امیر حسن حسینی داوود (۱۳۹۲) علم حضوری راہ حلی برای چند مسئلہ در اولیات: نگاہی بہ نظریہ محمد تقی مصباح یزدی، فصلنامہ ذہن، ۵۵، ۱۰۱–۱۲۶۔
4. سربخشی، محمد و فنائی اشکوری، محمد (۱۳۹۱) تعریف علم حضوری و اقسام آن، معرفت فلسفی، ۹ (۳)۷۶–۴۵۔
5. سربخشی، محمد (۱۳۹۴ الف) نگاہی بہ شبہات خطاءناپذیری علم حضوری و پاسخ آنہا، معرفت فلسفی، ۱۳(۲)۱۰۰–۷۵۔
6. سربخشی، محمد (۱۳۹۴ ب) چیستی و ارزش معرفت شناختی علم حضوری، قم، انتشارات مؤسسہ آموزشی پژوہشی امام خمینی (رہ)۔
7. شریف زادہ، بہمن (۱۳۸۲) علم حضوری: پایہ ارزش معلومات نیم نگاہی بر نظر علامہ طباطبائی دربارہ رابطہ معلومات با علم حضوری، فصلنامہ ذہن، ۱۵ و ۱۶، ۹۶–۸۳۔
8. طاہری خرم آبادی، سید علی (۱۳۹۷) فلسفہ اسلامی متأخر و مسئلہ دانش بہ جہان خارج، پژوہش ہای فلسفی – کلامی ۱۶۴–۱۴۷، )۷۸( ۲۰۔
9. طباطبائی، سید محمد حسین، علامہ طباطبائی (۱۳۸۶) نہایہ الحكمہ، قم: انتشارات مؤسسہ آموزشی پژوہشی امام خمینی (رہ)۔
10. طباطبائی، سید محمد حسین، علامہ طباطبائی (۱۳۸۷) اصول فلسفہ رئالیسم، بہ کوشش سید ہادی خسروشاہی، قم، بوستان کتاب۔
11. فنائی اشکوری، محمد (۱۳۷۵)، علم حضوری: سنگ بنای معرفت بشری و پایہ ای برای یک معرفت شناسی و ما بعد الطبيعہ متعالى، قم، انتشارات مؤسسہ آموزشی پژوہشی امام خمینی (رہ)۔
12. کرد فیروزجائی، یار علی (۱۳۹۲) حقیقت ادراک حسی از دیدگاہ علامہ طباطبائی، معرفت فلسفی، ۱۰ (۳)، ۱۱–۲۹۔
13. مصباح یزدی، محمد تقی (۱۳۸۳) آموزش فلسفہ (ج ١)، تہران: مؤسسہ انتشارات امیرکبیر۔
14. مصباح یزدی، محمد تقی (۱۳۹۳). تعليقہ على نہايۃ الحكمۃ، قم: انتشارات مؤسسہ آموزشی پژوہشی امام خمینی (رہ)۔
15. مطہری، مرتضی (۱۳۷۵ الف) مجموعہ آثار استاد شہید مرتضی مطہری (ج ۶)، تہران: انتشارات صدرا۔
16. مطہری، مرتضی (۱۳۷۵ ب) مجموعہ آثار استاد شہید مرتضی مطہری (ج ۹)، تہران: انتشارات صدرا۔
17. المظفر، محمد رضا (۱۳۸۲) المنطق، تصحيح على شيروانی، قم: انتشارات دار العلم۔
18. ملکیان، محمد باقر (۱۳۹۵) اقسام بدیہیات در رہیافتہا و رہ آوردہا: دیدگاہ ہای حضرت آيۃ اللہ محمد تقی مصباح یزدی، قم، انتشارات مؤسسہ آموزشی پژوہشی امام خمینی (رہ)۔
19. Ayer, A. J. (1971). Language, Truth and Logic. London: Penguin Books.
20. BonJour, L. (1978). Can Empirical Knowledge Have a Foundation? American
Philosophical Quarterly. 15 (1), 1–13.
21. BonJour, L. (1985). The Structure of Empirical Knowledge. Cambridge: Harvard
University Press.
22. BonJour, L. (2010). Epistemology: Classic Problems and Contemporary Responses.
(Second Edition). Maryland: Rowman & Littlefield Publishers, Inc.
23. Chisholm, R. M. (1964). The Myth of the Given. in Sosa E. & Kim, J. & Fantl, J. &
McGrath, M. (Eds.) Epistemology: An Anthology. Malden: Blackwell
Publishing.
24. Davidson, D. (1989). A Coherence Theory of Truth and Knowledge. in Sosa E. &
Kim, J. & Fantl, J. & McGrath, M. (Eds.) Epistemology: An Anthology.
Malden: Blackwell Publishing.
25. Kant, I. (1999). Critique of Pure Reason (P. Guyer & A. W. Wood, Eds.). Cambridge:
Cambridge University Press.

مآخذ: سید علی طاهری خرم آبادی، فلسفه اسلامی متأخر و علم حضوری، پژوهش های فلسفی – کلامی، سال بیست و یکم، زمستان 1398، شماره 4 (پیاپی 82).

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button